’’ وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں ، بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، بڑی ناراضی کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے ۔‘‘
اس کی طرف سے دی گئی سلطان سے مراد حجت اور دلیل ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ﴾ [الروم ۳۵]
’’ یا ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے کہ وہ بول کر وہ چیزیں بتاتی ہے جنھیں وہ اس کیساتھ شریک ٹھہرایا کرتے تھے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمْ لَکُمْ سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ oفَاْتُوا بِکِتٰبِکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ﴾ [الصافات ۱۵۶۔۱۵۷]
’’ یا تمھارے پاس کو ئی واضح دلیل ہے ؟ تو لاؤ اپنی کتاب، اگر تم سچے ہو ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ [النجم ۲۳]
’’ یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں ، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، ان کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی ۔‘‘
جو چیز انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیکر آئے ہیں اسے سلطان یعنی’’دلیل‘‘ کہتے ہیں ۔ ایسے ہی سنت بھی سلطان ہے۔اور سنت کی معرفت بھی اس وقت ہوتی ہے جب وہ صحیح سند کے ساتھ منقول ہو۔ جو شخص حدیث نبوی سے استدلال کرنا چاہے اس پر لازم ہے کہ استدلال کرنے سے قبل اس کی صحت معلوم کرلے۔ اور جب اس سے کسی دوسرے کے خلاف احتجاج کرے تو ساتھ ہی اس کی صحت بھی بیان کردے۔وگرنہ اس کا شمار بغیر علم کے بات کرنے والوں میں اور بغیر علم کے استدلال کرنے والوں میں ہوگا۔ جب یہ بات معلوم ہے کہ فضائل وغیرہ جیسے موضوعات پرلکھی گئی کتابوں میں جھوٹی روایات بھی پائی جاتی ہیں توصرف ان کتابوں میں روایت کے موجود ہونے کی بنا پر اس پر اعتماد کرنا اسی طرح ہے جیسے فاسق کی شہادت سے استدلال کرنا جو سچ بھی بولتا ہو اور جھوٹ بھی۔اگر ہمیں یہ علم ہوجائے کہ اس میں جھوٹ ہے ؛تو اس روایت سے ہمیں کوئی علمی فائدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہمیں کسی صحیح روایت کا علم نہ ہوجائے جسے ثقہ علماء نے روایت کیا ہو۔
ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کئی صدیوں کا فاصلہ ہے۔ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں لوگ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی دوسرے سے نقل کرتے ہیں ‘ اس میں جھوٹ بھی آجاتا ہے اور سچ بھی ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا : ’’ عنقریب مجھ پر جھوٹ بولا جائے گا۔‘‘ اگر یہ حدیث سچی ہے تو پھر [پیغمبر کی بات سچ ثابت ہونے کے لیے ] ضروری ہے کہ آپ پر جھوٹ بھی بولا جائے۔ اور اگریہ روایت جھوٹ ہے تو پھر
|