اسلام کا اظہار کرتے ہیں تووہ شیعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ تورات میں بارہ ائمہ کا ذکر ہے۔ تو یہ نئے اسلام کا اظہار کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ یہی شیعہ کے بارہ امام وہ ائمہ ہیں جن کی بشارت تورات میں دی گئی ہے۔ جب کہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد قریش کے وہ بارہ امام ہیں جنہیں امت کی عام ولایت نصیب ہوئی۔اوران کے زمانے میں اسلام غالب اور مستحکم تھا۔یہ بات بہت مشہور و معروف ہے۔
ابن ہبیرہ نے اس حدیث میں تاویل کی ہے کہ اس سے مراد بارہ ارکان مملکت ہیں مثلا وزیرقاضی اور اس طرح کے دوسرے لوگ۔ حالانکہ اس کی کوئی اہمیت یا ضرورت نہیں ۔ حدیث اپنے ظاہر پر ہے۔اس میں تکلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔بعض دوسرے لوگوں جیسے ابو الفرج ابن جوزی وغیرہ نے بھی اس کی بہت ضعیف تاویل کی ہے۔ اوربعض نے کہہ دیا ہے کہ ہم اس کا معنی سمجھنے سے قاصر ہیں جیسا کہ قاضی ابوبکر ابن العربی۔جب کہ مروان اور ابن زبیر میں سے کسی ایک کو بھی ولایت عامہ حاصل نہ تھی۔بلکہ ان کا زمانہ فتنہ کا زمانہ تھا۔اس دور میں نہ ہی اسلام کو کوئی غلبہ حاصل ہوا اور نہ ہی دشمنان سے جہاد کیا گیا جس کو حدیث شامل ہو۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی اسی باب سے قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ :آپ کی خلافت نص اور اجماع سے ثابت نہیں ہوتی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور بعض دوسرے ائمہ کرام نے ان لوگوں پر رد کیا ہے۔ان ائمہ کا کہنا ہے : جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ شمار نہ کرے وہ گھر کے گدھے سے بھی بدتر ہے۔انہوں نے خلافت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات پرحضرت سفینہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے استدلال کیا ہے جس میں ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تکون خِلافۃ النبوۃِ ثلاثِین سنۃ ثم تکون ملکاً۔‘‘[سبق تخریجہ]
’’خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی۔ پھر اس کے بعدبادشاہی ہوگی۔‘‘
فرمایا: کسی نے راوی سے کہا:بنو امیہ کہتے ہیں :حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے۔ تو آپ نے فرمایا: بنوزرقاء (نیلی آنکھوں والے کی اولاد)نے جھوٹ بولا۔ اس موضوع پرتفصیلی کلام دوسرے مقامات پر گزر چکاہے۔یہاں پر مقصود یہ ہے کہ جس حدیث میں بارہ خلفاء کا ذکر ہے خواہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان میں داخل مانا جائے یا نہ مانا جائے اس سے مراد قریش کے وہ خلفاء ہیں جو کہ گزر چکے ہیں ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ میں دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار تھے۔ اس میں کسی ایک عالم کو بھی کوئی ادنی شک بھی نہیں ہے۔
[ سیرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پلڑا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے مقابلۃ بھاری ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عمرمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیس سال زیادہ بڑے تھے۔ اس بات پر صحابہ کا اجماع قائم ہو چکا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ ان دلائل سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت واضح ہو تی ہے]۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو رافضی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو ایسے فضائل ذکر کیے ہیں ‘ جو عنداللہ فضائل ہیں تو وہ حق ہیں ۔مگر پہلے تین خلفاء ان فضائل میں آپ سے زیادہ کامل و اکمل تھے۔
|