Maktaba Wahhabi

524 - 764
داخل ہو جاؤ ۔اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔‘‘ جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کہا جاسکتا ہے کہ : جب کوئی ایک انسان عجمی ہو اور دوسرا عربی ہے۔ ہم مجمل طور پر بالجملہ کہتے ہیں کہ:’’ عرب عجمیوں کی نسبت افضل ہیں ۔‘‘[ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں میں جو خیر و تقویٰ اور فضائل و محاسن پائے جاتے ہیں وہ عجمیوں میں موجود نہیں ]۔ ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ عجمی کو عربی پر؛نہ ہی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر ۔مگر فضیلت صرف تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔[1]سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے ہوئے تھے۔‘‘[2] سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اﷲتعالیٰ نے جاہلیت کے کبر و غرور اور آباء و اجداد پر فخر کرنے کو تم سے دور کردیا ہے۔ انسان دو ہی قسم کے ہوتے ہیں (۱) مومن متقی(۲) فاسق و فاجر۔[دیکھیں سابقہ تخریج] اسی لیے جب کوئی انسان اگر عرب و عجم میں سے کہیں سے بھی ہو؛ اور دوسرا قریش میں سے ہو۔ تو ان دونوں کا مقام اللہ کے ہاں تقوی کے اعتبار سے ہوگا۔اگر وہ طاعت و تقویٰ میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تو جنت میں دونوں کا درجہ مساوی ہو گا۔ اوراگر تقوی ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہوں گے تودرجات میں بھی ایک دوسرے پر فضیلت ہوگی ۔ایسے ہی اگر ایک انسان بنی ہاشم سے تعلق رکھتا ہو‘اور کوئی دوسرا انسان عام عرب یا عجم میں سے ہو‘ تو ان دونوں میں سے اللہ کے ہاں افضل وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا متقی ہو۔اگریہ دونوں تقوی میں برابر ہوں گے تو ان کا مقام ومرتبہ بھی برابر کاہوگا۔ان دونوں میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے باپ ‘ یا بیٹے یا بیوی ‘یا بھائی ‘یا چچا کی وجہ سے فضیلت نہیں پائے گا۔ جیسا کہ دو آدمی اگر طب اور حساب کے عالم ہو یا پھر فقہ اور نحو کے ‘ یا کسی دیگر علم و فن کے۔تو ان دونوں میں سے علم میں زیادہ کامل وہ ہوگا جس کے پاس علم زیادہ ہوگا۔اور اگر اس برابر ہونگے تو علم بھی برابر ہوں گے۔ان میں سے کوئی ایک اپنے باپ یا بیٹے کی وجہ سے دوسرے سے بڑا عالم نہیں بن جائے گا۔یہی حال سخاوت؛ بہادری؛ زہد اور دینداری کا بھی ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی توپتہ چلا کہ خارجی فضائل کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے؛ ہاں مگر اس وقت جب
Flag Counter