Maktaba Wahhabi

51 - 764
درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہاتھوں پر خیبر فتح کیا۔ جس کا ان سے سورت فتح کے نزول کے وقت وعدہ کیا جا چکا تھا۔ اوروہاں کے اموال غنیمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ اس لیے کہ ان میں سے دو سو گھوڑے سوار تھے۔ تو آپ نے گھوڑے سوار کو تین حصے دیے۔ ایک حصہ اس کا اپنا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے۔پس اس طرح سے گھوڑے سواروں کے چھ سوحصے ہوئے۔ اور باقی لوگوں کے بارہ سو حصے ۔ یہ وہ بات ہے جو صحیح احادیث میں ثابت ہے۔اکثر اہل علم جیسے امام مالک ؛ امام شافعی اور احمد بن حنبل کے علاوہ دوسرے ائمہ کرام کی یہ رائے ہے۔ اور بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ آپ نے گھوڑے سواروں کو دو حصے دیے؛ اور ان کی تعداد تین سو تھی۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا مسلک ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر لڑنے والوں میں سابقین اولین میں سے بھی کچھ لوگ موجود تھے؛ جیسے حضرت سہیل بن حنیف اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ۔ مگر جو لوگ اس جنگ سے اپنا دامن بچا کر بیٹھے رہے وہ لوگ زیادہ افضل تھے جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ مل کر قتال نہیں کیا۔اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے افضل کوئی دوسرا صحابی نہیں تھا۔اور ایسے ہی انصار میں سے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ:’’ فتنہ و فساد سے محمد بن مسلمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1] آپ بھی اس جنگ سے الگ تھلگ رہے۔اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہ جنگیں تاویل کی وجہ سے فتنہ کی جنگیں تھیں ۔ اس کا واجب یا مستحب جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی نسبت زیادہ حق پر تھے۔ صحیح حدیث میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور ان دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘[2] پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ان کے ساتھ لڑنے والوں کی نسبت حق پر تھے۔ اس لیے کہ آپ نے ہی مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت خوارج کو قتل کیا ۔اس وقت مسلمانوں کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی اور ایک جماعت آپ کے خلاف تھی۔پھر جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی وہ بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گئے ۔بلکہ وہ برابر کفار کو قتل کرتے رہے ؛ اور مختلف شہر فتح کرتے رہے ۔ صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter