شخص سے روایت نہیں کرتے جو ان کے ہاں ثقہ نہ ہو۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت نقل کرتے ہیں جس کے بارے میں انہیں علم ہو کہ یہ روایت جھوٹ ہے۔ ایسے جھوٹے لوگوں کی احادیث روایت نہیں کرتے جن کے بارے میں عمداً جھوٹ بولنا معروف ہو۔ لیکن کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ جس سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ اس روایت میں غلطی کررہا ہوتا ہے۔
یقیناً امام احمد اور اسحق بن راہویہ رحمہما اللہ اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے ایسی احادیث بھی روایت کی ہیں جو ان کے نزدیک ضعیف ہیں ۔ کیونکہ ان کے راویوں پر حافظہ کی خرابی کی ؛ یا اس طرح کی دیگر کوئی تہمت ہے۔ لیکن ان کے روایت کرنے کا مقصد ان سے استشہاد پیش کرنا ہے۔ اس لیے کہ جس حدیث کے لیے ان روایات سے استشہاد پیش کیا جاتا ہے؛ وہ بیشتر اوقات محفوظ بھی ہوسکتی ہے۔اور کبھی اس سے کسی دوسری حدیث میں وارد خطا پر تنبیہ کرنے کے لیے بھی استشہاد کیا جا سکتا ہے۔ اور کبھی اس حدیث کے راوی نے باطن میں جھوٹ بولا ہوتا ہے؛لیکن وہ جھوٹ بولنے میں مشہور نہیں ہوتا۔بلکہ وہ اکثر و بیشتر سچ ہی بولتا ہے تو اس کی حدیث روایت کرلی جاتی ہے۔ فاسق کی روایت کردہ ہر روایت جھوٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کو واضح طور پر بیان کرنا واجب ہو جاتا ہے؛فرمان الٰہی ہے:
﴿یٰاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَائٍِ فَتَبَیَّنُوْا ﴾ [الحجرات ۶]
’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی کمزور بیان والا خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔‘‘
پس ان روایات کو اس لیے نقل کر لیا جاتا ہے کہ تاکہ اس کے سارے شواہد میں دیکھ لیا جائے کہ یہ صداقت پر دلالت کرتے ہیں یا جھوٹ پر۔
بہت سارے مصنفین ایسے ہیں جن کے لیے احادیث میں اس اعتبار سے تمیز اور فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ۔ پس وہ جو بات سنتے ہیں اس کو ویسے ہی روایت کردیتے ہیں جیسے انہوں نے سنی ہوتی ہے۔ اور اس کے ادراک و تحقیق کا معاملہ دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں ؛ ان پر یہ ذمہ داری نہیں ہوتی۔ پس اہل علم اس حدیث میں اور اس کی سند اورراویوں میں دیکھ کر اس کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں ۔
دوسری بات :....ہم کہتے ہیں موضوعات کے علماء کے نزدیک یہ حدیث بالاتفاق جھوٹ ہے۔جو لوگ اس باب میں مرجع سمجھے جاتے ہیں ‘ وہ اس حدیث کو جھوٹ روایت قرار دے رہے ہیں ۔اسی لیے حدیث کی وہ اہم ترین کتب جو کہ اہل علم اور محدثین کے ہاں مرجع سمجھی جاتی ہیں ‘ ان میں اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ۔
تیسری بات:....احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے واقعہ سے[ نوروز] پہلے اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں قیام پذیر تھے۔‘‘[1]
|