آپ نے قبل از وقت اپنے قتل سے آگاہ کردیا تھا۔ آپ نے ابن شہر یار ملعون کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے؛اور اسے سولی دی جائے گی ۔چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے سولی چڑھا دیا۔ آپ نے میثم کھجور فروش سے کہا تھا کہ دارِباب عمرو پر دس آدمیوں کو پھانسی دی جائیگی، ان میں دسواں شخص میثم ہو گا۔‘‘اوروہ ان کے تختہ سے چھوٹا ہوگا۔ آپ نے اسے وہ کھجور کا درخت بھی دکھایا تھا جس پر اسے پھانسی دی جانے والی تھی اور اسی طرح وقوع میں آیا۔
٭ آپ نے رُشید الہجَری کو بتایا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے اور اسے پھانسی دی جائے گی؛ اوراس کی زبان کاٹ دی جائے گی۔چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ آپ نے خبر دی تھی کہ حجاج کمُیل بن زیادکوقتل کرے گا؛ اور قنبر کو ذبح کرے گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔
٭ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ:’’ میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا جائے گا اور تم اس کی مدد نہیں کرو گے ؛اوراسی طرح ہوا۔اورآپ نے اپنے بیٹے کی قتل گاہ کے بارے میں خبر دی تھی۔
٭ نیز آپ نے فرمایا تھا کہ:’’ بنو عباس آسانی سے اقتدار سنبھال لیں گے۔اور پھر ترک ان سے ملک چھینیں گے ۔ آپ نے فرمایا:’’بنی عباس کی شاہی آسان ہوگی؛ اس میں کوئی سختی نہیں ہوگی۔ اور اگر ترک و دَیلم اور ہندو سندھ ؛ بربر[افریقہ ] اورطیلسان[فارس] کے لوگ مل کر ان کی سلطنت چھیننا چاہیں تو اس پر قادر نہ ہوں گے؛ جب تک کہ ان کے موالی اور ارباب دولت ان سے الگ نہ ہو جائیں ۔ ترک کا ایک بادشاہ ان پر مسلط ہو گا وہ اس جگہ سے آئے گا جہاں سے ان کی سلطنت کا آغاز ہوا تھا۔ جس شہر پر سے اس کا گزر ہو گا اسے فتح کرے گا ۔ اس کے مقابلہ کے لیے جو جھنڈا بلند کیا جائے گا وہ اسے سرنگوں کردے گا، جو اس کی مخالفت کرے گا اس کے لیے ہلاکت و تباہی ہے۔ وہ برابر ان سب پر کامیابی حاصل کرتا رہے گا ۔پھر یہ کامیابی میرے اہل بیت کے ایک شخص کو سونپ دیگا۔[یعنی اس کی کامیابی کا انحصار میرے اہل بیت کے ایک شخص پر ہو گا]جو حق کی بات کہے گا اور حق پر عمل پیرا ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس طرح فرمایا تھا اسی طرح ہوا اور ہلاکو خان خراسان کے علاقہ سے نکل کر حملہ آور ہوا۔‘‘اور آپ سے ہی بنی عباس کے اقتدار کی ابتداء ہوئی۔ یہاں تک کہ ابومسلم خراسانی نے ان کی بیعت کرلی۔‘‘ ( شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا۔)
[جواب]:ہم کہتے ہیں :’’ بعض غیبی امور کی خبریں دینا توجو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کم درجہ کے صلحاء بھی اس طرح کی خبریں دیا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان تو اس سے بہت زیادہ بلند وارفع ہے۔حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے اتباع کاروں میں ایسے لوگ تھے جو اس سے بڑھ کر خبریں دیا کرتے تھے۔مگر اس کے باوجود یہ لوگ امامت و خلافت کے اہل نہ تھے۔اورنہ ہی وہ اپنے زمانہ کے باقی لوگوں سے افضل تھے۔اسی کی مثالیں ہمارے اس دور میں بھی موجود ہیں ‘اور دیگر ادوار میں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما و دیگر صحابہ سے اس سے کئی گنا زیادہ خبریں نقل کی گئی ہیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً ایسی روایات بیان کرتے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کبھی مرفوع کرتے اور کبھی موقوف
|