تھے اور یہ لوگ ضرورت کے تحت دو خلیفہ ہونے کو جائز کہتے ہیں ۔ایسے ہی یہ لوگ حضرت ابن زبیر اور یزید کے دور کے متعلق بھی کہتے ہیں ۔اس لیے کہ لوگوں کا ایک خلیفہ پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔
٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے امام تھے ؛ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ میرے بعد خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی؛ پھر اس کے بعد بادشاہی ہوگی۔‘‘[سنن الترمذي۳؍۳۴۱]
بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔مگر امام احمد اور دوسرے علمائے کرام رحمہم اللہ اسے صحیح ثابت کرتے ہیں ۔یہ حدیث ان کے مذہب میں خلافت علی رضی اللہ عنہ پر نصوص کی اساس اور سرمایہ ہے۔اگر یہ لوگ کوئی ایسی صحیح اور مستند یا مرسل حدیث پالیتے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہو تو پھر ان کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہتی ۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ رافضی جس نص کے متعلق دعوی کرتے ہیں اہل علم نے قدیم و حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے کوئی ایسی بات نہیں سنی۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم ضرورت کے تحت ایسی روایات کے جھوٹ کو خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔جیساکہ ان کے سامنے دوسری تمام جھوٹی روایات واشگاف ہوتی ہیں ۔
جب تحکیم الحکمین کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت اکثر لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ اس وقت مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ نص بیان کی ہو؛نہ ہی آپ کے ساتھیوں میں سے اور نہ ہی دوسرے لوگوں میں سے ۔حالانکہ اس وقت آپ کے شیعہ بھی کثرت سے تھے۔ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے یہ روایت بطور حجت پیش کی ہو۔ حالانکہ یہ ایسا موقع تھا کہ ایسی نصوص کو ہر حال میں سامنے لانا چاہیے تھا۔
او ریہ بھی طے شدہ بات ہے کہ اگر شیعان علی رضی اللہ عنہ کے پاس ہی کوئی اس قسم کی نص موجود ہوتی تو معروف عادت کا تقاضا تھا کہ کوئی بھی یہ کہہ دیتا کہ آپ کی خلافت کے بارے میں یہ نص موجود ہے ؛ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ کو مقدم کرنا واجب ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ خو د انتہائی نیک دل مسلمانوں میں سے تھے ۔ اگر آپ کو یہ علم ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص موجود ہے تو آپ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی بات نہ کرتے۔ اور اگر آپ ایسی بات کرتے بھی تو اس کا انکار کیا جاتا کہ آپ کیسے اس انسان کو معزول کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کی خلافت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص موجود ہے ؟
شیعہ نے ایک حجت یہ بھی پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘یہ حدیث خبر واحد ہے ؛ یا پھر اس کو روایت کرنے والے دو یا تین افراد ہیں ؛ متواتر نہیں ہے۔ اور نص کے لیے متواتر ہونا ضروری ہے ۔
واہ سبحان اللہ ! عجیب بات ہے کہ شیعہ حضرات صحیح منقول اور صریح معقول کو چھوڑ کر ایسی روایات سے استدلال کرتے ہیں ؛کیا ان میں سے کوئی ایک بھی کوئی نص پیش نہیں کرسکتا ؟
|