مہر کی کم ازکم مقدار اتنا مال ہے جس کے چوری کرنے پر حد لازم آتی ہو۔جب اسے شریعت میں مقدرمانا جائے اور جو اس سے زیادہ ہوگا وہ شوہر کی طرف سے خرچ ہوگا ‘ اوروہ اس کا بدلہ پالیتا ہے۔عورت اس کی مستحق نہیں ہوتی۔لہٰذا اسے بیت المال میں رکھا جائے۔ جیسے کہ اگر کوئی مسلمان شراب بیچ دے تو اس سے وہ رقم وصول کرکے مسلمانوں کے بیت المال میں شامل کر لی جائے گی۔اور اس مزدور کی مزدوری بھی ضبط کرکے بیت المال میں شامل کرلی جائے گی جو خود کو شراب اٹھانے پر مزدور بنائے۔اور اس طرح کے دیگر اقوال بھی ہیں جن پر علماء کرام کا فتوی ہے۔
بلاشک وشبہ جو انسان عوض کے بدلے حرام چیزسے منفعت حاصل کرلے؛ جیسا کہ وہ انسان جو کسی چیز کے بدلے زنا کرتا ہے ‘ یا پھر حرام گانے وغیرہ سنتا ہے ‘ یا شراب پیتا ہے ‘ تواس کی غرض پوری ہونے کے بعد یہ مال اسے واپس نہیں کیا جائے گا ‘ اس لیے کہ اس میں معصیت ونافرمانی پر تعاون اوراسے فروغ دینا ہے۔ اگرچہ وہ دوبارہ اپنی چیز کومعاوضہ کے بدلہ میں ہی حاصل کرنا چاہے۔ اوراگریہی چیز بیچنے والے یا مزدور کو دی جائے تو گویا کہ اس کے لیے خبیث چیزکو مباح کیا گیا ہے ‘ لہٰذا اس مال کو مسلمانوں کی مصلحت کے امور میں صرف کیا جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک عادل حکمران تھے۔آپ کا نکتہ نظر یہ تھا کہ زیادہ مہر شرعی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ توایک عورت آئی اور اس نے کہا: ’’ آپ ہم سے وہ چیز کیوں روکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمارے لیے حلال کی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’ کتاب اللہ میں کہاں ہے ؟وہ کہنے لگی : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰلہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا﴾ [النساء۲۰]
’’اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے آپ سے یہاں تک کہا:’’ کیا ہم آپ کی بات سنیں یا قرآن کی بات سنیں ۔ توآپ نے فرمایا: نہیں بلکہ کتاب اللہ کی بات سنو۔ تو اس نے یہ آیت پڑھ کرسنائی ؛ اس پر آپ نے فرمایا تھا:’’مرد نے؛ غلطی کھائی اور عورت کی بات صحیح نکلی۔‘‘[1]
اس کے باوجود کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں علم ودین کے الہام کی خبر دی تھی؛ ایسی خبر حضرت عثمان‘علی؛ طلحہ زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے بھی حق میں وارد نہیں ہوئی۔
سنن ترمذی میں حضرتِ ابن عمر سے روایت ہے : بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِن اللہ جعل الحق علی لِسانِ عمر وقلبِہِ ))۔[سبق تخریجہ]
’’بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل و زبان پر حق کو جاری کردیا ہے ۔‘‘
اورامام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایاہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ::
|