اس کے برعکس۔
کہتے ہیں : بیشک نفوس اور عقول ملائکہ ہیں ۔اور بسا اوقات وہ نفسانی قوت جو فعل الخیرات کا تقاضا کرتی ہے اسے ملائکہ قراردیتے ہیں ۔ اوروہ قوت جو شر کا تقاضا کرتی ہے اسے شیاطین قرار دیتے ہیں ۔اور یہ کہ جو ملائکہ رسولوں پر نازل ہوتے ہیں اور وہ کلام جو موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے سنا تھابلاشبہ وہی چیز انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوس میں موجود ہوتی ہے خارج میں نہیں ہوتی۔ اس کی وہی حیثیت ہے جیسے کوئی سویا ہواانسان خواب دیکھنا ہے۔ اورجیسا کہ بہت سارے ریاضت و مشقت کرنے والے لوگوں کے لیے حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے کہ اس کے جی نورانی اشکال کا تخیل پیدا ہوتا ہے۔اور وہ اپنے جی میں کچھ آوازیں بھی سنتا ہے۔ زنادقہ کے نزدیک یہ اللہ کے فرشتوں اور کلام اللہ کی حقیقت ہے۔ ان کے نزدیک کلام منفصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی نے یہ بھی دعوی کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے ایسے ہی کلام کیا جیسے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا۔ یا اس سے بھی بڑھ کر کلام کیا۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حروف اور اصوات کی صورت میں کلام کیا گیاتھا جو آپ اپنے جی میں محسوس کررہے تھے۔ اور وہ مجرد عقلی معانی سے کلام کرتے ہیں ۔
مشکاۃ الانوار اور’’الکتب المضنون بہا علی غیرأ ہلہا‘‘ کے کلام میں اس طرح کے کلام کا ایک قطعہ واقع ہوا ہے۔ اور اس وجہ سے دوسرے مقامات ان کی تکفیر کی گئی ہے۔ مگراس نے اس عقیدہ سے رجوع کرلیا تھا۔ اور آخر میں وہ بخاری ومسلم اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔
خلع النعلین کے مصنف ابن قسی اور ان کے امثال اور فصوص الحکم اور الفتوحات المکیۃ کے مصنف ابن عربی بھی اسی ڈگر پر چلے؛ اسی لیے انہوں نے یہ دعوی کر ڈالا کہ وہ بھی اسی معدن سے علم پاتے ہیں جس سے فرشتہ لیتا ہے اور جو انبیا کرام علیہم السلام کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک نبی فرشتہ سے وہی وحی حاصل کرتا ہے جو مرسلین کی طرف وحی کی گئی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک نبی ان خیالات سے لیتا ہی جو اس کے نفس میں متمثل ہوتے اورپھر عقلی معانی خیالی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی صورت ان کے ہاں ملائکہ کی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک نبوت محض عقل سے تصور کے خیال بننے سے پہلے اخذ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ نبوت پر ولائت کو ترجیح دیتا ہے۔ اور کہتا ہے: بزرخ میں نبوت کا مقام رسول سے تھوڑا اوپر اور ولی سے تھوڑا کم ہوتاہے۔
اس کے فاسد اصول کے مطابق نبی بغیر کسی واسطہ کے براہ راست اللہ تعالیٰ سے احکام حاصل کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ عقل سے اخذ کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہی بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے اخذ کرنا ہے۔ اس کے ان کے نزدیک ملائکہ کوئی منفصل چیز نہیں ہیں جو وحی لیکر نازل ہوں ۔ اور ان کے نزدیک رب مخلوقات سے جدا کسی وجود کا نام نہیں ۔بلکہ وہ ایک وجود مطلق ہے یا اللہ تعالیٰ کے متعلق بعض امور ثبوتیہ کی نفی کا نام ہے۔ یا پھر بعض امور ثبوتیہ اور سلبیہ کی نفی کا نام ہے۔ اور کہتے ہیں : وہ وجود مخلوقات کانام ہے۔ یا پھر ان میں حال کا نام ہے۔ یا پھر نہ یہ ہے اور نہ ہی وہ ۔ ان کے نزدیک ہر نبی و
|