Maktaba Wahhabi

402 - 764
زمانہ ہے جو کہ جسم اوراعراض سے خالی ہے۔ ایسے ہی جسم واعراض سے خالی فضا کو بھی یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں ارسطو اور اس کے متبعین نے اپنے اسلاف کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ان میں سے کسی ایک چیز کو بھی مجرد نہیں ۔لیکن اس کے برعکس صورت کے لیے مادہ مقارنہ کو تسلیم کیا اور ثابت مانا ہے۔ اور اعیان کے مقارن کلیات کوبھی ثابت مانتے ہیں ۔ نیز انہوں نے دس عقول کو ثابت مانا ہے۔ جب کہ خود اکثر فلکیہ اسے جسمانی قوت مانتے ہیں ۔ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جوہر ہے جو بذات خود ایسے ہی قائم ہے جیسے انسانی نفس۔ لفظ صورت سے کبھی تو ان کی مراد عرض(اصل جسم)ہوتی ہے اور کبھی وہی مصنوعی صورت ۔جیسے کا چارپائی انگوٹھی اور تلوار کی شکل ۔ یہ عرض اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اور مادہ سے بھی یہاں پر مراد جوہر ہے جو کہ بذات خود قائم ہے ۔اور کبھی صورت سے مراد قدرتی صورت اور مادہ سے قدرتی مادہ مراد لیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حیوانات معادن اور نباتات کی بھی ایک صورت ہوتی ہے اس لیے کہ وہ مادہ سے پیدا کیے گئے ہوتے ہیں ۔لیکن صورت سے ان لوگوں کی مراد بذات خود قائم جوہر ہوتا ہے۔ اورمادہ سے مراد ایک دوسرا جوہر ہوتاہے جو کہ اس پہلے جوہر کے قریب تر ہوتا ہے۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں اہل کلام جو کہ منفرد جوہر کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ کوئی بھی حادث ایسا نہیں ہے جس کا ظہور پذیر ہونا مشاہدہ سے معلوم ہوا ہو مگروہ عرض ہوتا ہے۔ اوریہ کہ وہ جواہر میں سے کسی بھی جوہر کے حدوث کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ یہ دونوں قول خطا پر مبنی ہیں اور اس بارے میں ہم اپنی جگہ پر تفصیل سے کلام کرچکے ہیں ۔ کبھی مادہ سے مرادہ مادہ کلیہ ہوتا ہے جو کہ اجسام کے مابین مشترک ہوتاہے۔اور صورت سے مراد بھی صورت کلی ہوتی ہے جوکہ اجسام میں مشترک ہوتی ہے۔اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ دونوں عقلی جوہر ہیں ۔حالانکہ ایسا کہنا غلط ہے۔ اس لیے کہ اجسام کے مابین مشترک چیز امر کلی ہے۔ اور کلیات توصرف اذہان میں پائے جاتے ہیں اعیان میں نہیں ہوتے۔ اور ہر وہ چیز جو خارج میں اپنا وجود رکھتی ہو اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے دوسروں سے ممیز اورجدا اوراس میں کوئی دوسرا شریک بھی نہیں مگر وہ جب کلیہ کے اعتبار سے اخذ کی جائے تو ذہن میں بھی موجود ہوتی ہے۔ اجسام میں اتصال اورانفصال پایا جاتا ہے۔ یعنی ان میں اجتماع اورافتراق ہوتا ہے۔ اوروہ دونوں اعراض ہیں ۔ انفصال کوئی ایسی چیز نہیں جو بذات خود قائم ہو۔جیساکہ حرکت بذات خود قائم کوئی چیز نہیں سوائے اس محسوس جسم کے جس پر اتصال و انفصال واقع ہوتا ہے۔ اسے ہیولیٰ اور مادہ کا نام دیتے ہیں ۔ان امور کو دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو ان کے اور دوسرے لوگوں کے اقوال کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ اور نہ ہی انہیں رسولوں کے لائے ہوئے پیغام کی کوئی سمجھ ہوتی ہے کہ وہ اس میں حق اور باطل میں تمیز کرسکیں ۔ اور انہیں علم ہوسکے کہ کیا وہ صریح معقول کے مخالف ہیں یا موافق۔جب ان میں سے کوئی اسلام کا اظہار کرتا ہے تووہ اسے اسلامی عبارات سے تعبیر کرتا ہے۔ پس وہ عالم الملک کو جسم اور عالم النفس کو ملکوت سے تعبیر کرتا ہے۔عالم جبروت کو عقل سے تعبیر کرتا ہے ؛یا پھر
Flag Counter