سچے ہوتے ہیں ۔
معتزلہ بھی باقی تمام فرقوں کی طرح ہیں ۔ ان میں سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی؛ لیکن ان میں حدیث اور علوم حدیث کا وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جو کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ حدیث کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں ‘[ اس لیے انہیں معرفت حدیث کی ضرورت پڑتی ہے]۔تو ضرورت ہوتی ہے کہ سچائی کو پہچان سکیں ۔ جب کہ خوراج ایک دوسری راہ کے مسافر ہیں جسے انہوں نے خود ہی گھڑلیا ہے ‘ اور اسی پر ان کا اعتماد ہے [وہ نہ جھوٹی روایات سے احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی صحیح روایات سے۔ انھوں نے از خود کچھ قواعد گھڑ رکھے ہیں اور وہ انہی کو پیش نظر رکھتے ہیں ]۔ جس میں ان کے ہاں حدیث کاذکر تک نہیں پایا جاتا ؛ بلکہ وہ اپنے اصول میں قرآن تک کوذکر نہیں کرتے ۔ صرف اس سے تقویت حاصل کرنے کے لیے ؛ اعتماد کے لیے نہیں ۔
روافض کا یہ عالم ہے کہ عقل و نقل دونوں سے تہی دامن ہیں ۔ نہ ہی وہ کسی روایت کی اسناد دیکھتے ہیں اور نہ ہی باقی ساری شرعی اور عقلی دلیلوں کاخیال کرتے ہیں کہ کیا یہ ان کے موافق ہیں یامخالف۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کو ئی بھی صحیح اور متصل سند نہیں پائی جاتی۔بلکہ ان کے ہاں جو بھی سند متصل ہوگی ؛ اس میں کوئی نہ کوئی راوی ضرور ایسا ہوگا جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوگی یہ پھر وہ کثرت کے ساتھ غلطیاں کرنے والا ہوگا۔
رافضی اس باب میں یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ان کے ہاں بھی کوئی سند نہیں پائی جاتی۔جب کہ اسناد اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ اور پھر اہل اسلام میں احادیث وآثار اور اسانید کی پہچان اہل سنت والجماعت کا خاصہ بن کر رہ گیا ہے۔ روافض کے نزدیک کسی حدیث کی صحت کی علامت یہ ہے کہ وہ اس کے افکار و معتقدات سے ہم آہنگ ہو، امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اہل علم موافق و مخالف سب احادیث لکھتے ہیں ، مگر مبتدعین وہی روایات لکھتے ہیں جن سے انکے نظریات کی تائید ہوتی ہو۔‘‘
پھر یہ کہ ان کے پہلے لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے تھے۔ان کی روایات ان لوگوں تک منتقل ہوئیں جو صحیح اور سقیم کی معرفت سے عاری تھے۔پس ان کے بس میں صرف اتنا ہی تھا کہ یا تو تمام روایات کی تصدیق کریں اور یا پھر تمام روایات کی تکذیب کریں ۔اور غیر مستند اور منفصل دلائل سے استدلال کرتے رہیں ۔
ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آیا تم نقاش و ثعلبی و ابو نعیم کی مرویات ہر حال میں قبول کرتے ہو، مخالف یا موافق ہوں ؟ یا مطلقاً ان کو ٹھکرا دیتے ہو؟ یا موافق روایات کو قبول کرتے اور مخالف کی تکذیب کرتے ہو؟
ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’ الحلیہ ‘‘میں فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم جمع کیے ہیں ۔ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مناقب پر ایک کتاب ہے ۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب موجود ہیں ۔ ان میں صحیح روایات بھی ہیں ‘ ضعیف بھی ہیں ؛ بلکہ بعض منکر روایات بھی موجود ہیں ۔ ابو نعیم اپنی منقولات کا خوب علم رکھنے والے
|