آپ کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا جاتاکہ صرف معصوم کو ہی اپنا جانشین مقرر کریں تو یہ ایسی تکلیف ہوتی جو آپ کے بس سے باہر ہے۔ اس طرح مقصودولایت فوت ہوجاتا؛ اور لوگوں کی دنیا اوردین میں خرابی پیدا ہوجاتی ۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے لیے اپنی زندگی میں جائز ہی نہیں بلکہ واجب تھا کہ ایسے لوگوں کو اپناجانشین مقرر کریں جو کہ معصوم نہیں ؛ایسے ہی اگر اپنی موت کے بعد کسی کوجانشین مقرر کریں تو ان کے لیے معصوم ہونا ضروری نہیں ۔اورنہ ہی موت کے بعد آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ انہیں تعلیم دیں یا ان کی اصلاح کریں ؛ جیساکہ آپ اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے ۔ تو اس لیے آپ کااپنا جانشین مقرر نہ کرنا جانشین مقرر کرنے سے زیادہ بہتر تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پہنچادیئے۔ اورامت کوان چیزوں کی تعلیم دے دی جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورجن سے منع کیا ہے۔ پس وہی خود ایسے انسان کواپنے اوپر خلیفہ مقرر کرلیں گے جو ان میں اللہ اوراس کے رسول کے احکام قائم کرے۔ اوروہ لوگ اس خلیفہ کے ساتھ قیام شریعت کے امور میں مدد کریں گے۔اور کسی کے لیے ان امور کوقائم کرنااس کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ پس جو کوئی علم کی بات اس [خلیفہ ] سے رہ گئی ہو توجاننے والے اسے تعلیم دیں گے؛ اور جہاں پر ان کی مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد کریں گے۔ اورجو کوئی حق سے روگردانی کرے ‘ اسے حسب امکان اپنے قول و عمل سے واپس حق پر لائیں گے۔ چنانچہ ان کی کسی بات کا حساب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہوگا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کی کوئی جواب دہی نہیں ہوتی۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی موت کے بعد جانشین مقرر نہ کرنا جانشین مقرر کرنے سے زیادہ بہتر اور آپ کے حق میں زیادہ اکمل ہے۔پس جو کوئی موت کے بعد جانشین مقرر کرنے کو زندگی میں جانشین مقرر کرنے پر قیاس کرتا ہے ؛ وہ لوگوں میں سب سے بڑا جاہل انسان ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں ؛ تو پھر آپ کے لیے ان کے حقدار ہونے کی طرف اشارہ ورہنمائی بھی کردی۔حالانکہ آپ جانتے تھے کہ امت آپ کے بعد ان کو ہی جانشین مقرر کرے گی؛ یہ خود آپ کے جانشین مقرر کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے تاکہ امت خود ہی اس واجب کو پورا کرے۔ اور اس کا ثواب بھی امت کے لیے زیادہ ہوگا کیونکہ اس سے مقصود رسالت حاصل ہورہا ہے۔
ایسے ہی جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ علم تھا کہ امت میں اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی دوسرا نہیں ؛ اور آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر میں انہیں اپنا جانشین مقرر نہیں کروں گاتو ان کی سختی کی وجہ سے شائد لوگ آپ کو خلیفہ نہ بنائیں ؛ تو آپ نے خود ہی انہیں اپنا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ کایہ اقدام امت کے حق میں بہت بہتر تھا۔
پس جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ؛ وہ آپ کے علم و فضل کے شایان شان تھا۔ اور جوکچھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ‘ وہ آپ کے لائق تھا ؛ اس لیے کہ جس چیز کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا ؛ اس کا علم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں تھا۔
٭ چھٹا جواب:ان سے کہا جائے گا : تصور کیجیے ! جانشین مقرر کرنا واجب تھا ؛ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
|