وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّسے مراد: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔
وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سے مراد: حضرت علِی۔ رضی اللہ عنہ ہیں ۔
یہ تفسیر بھی اپنے سے پہلی تفاسیر کی جنس سے تعلق رکھتی ہے۔
جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں :
۱۔﴿وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ﴾ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
۲۔ ﴿وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ﴾ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
۳۔ ﴿اَلشَّجْرَۃُ الْمَلْعُوْنَۃُ﴾ اس سے مراد بنو امیہ ہیں ۔
اس طرح کی دیگر من گھڑت تفسیریں اور باتیں جو کوئی بھی ایسا انسان نہیں کہہ سکتا جسے اللہ تعالیٰ کے وقار کا کچھ ذرا بھر بھی خیال ہو اور نہ ہی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے ۔
یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾ (الرحمن:۱۹)
’’اس نے دو دریا جاری کر دیئے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ۔‘‘
اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ مراد ہیں ۔‘‘
﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؛
اور﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾لؤلؤ اور مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔ [1]
|