’’اس میں حضرت ابو اوفی بھی شامل ہیں ۔‘‘
اور یہی حال اس حدیث کا بھی ہے:
(( لقد أوتِی ہذا مِزمارا مِن مزامِیرِ آلِ داود ۔))
’’حقیقت میں اسے حضرت داؤد کی لَے[سُر] میں سے ایک لَے دی گئی ہے ۔‘‘ [1]
پس جب حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام اہل بیت سے افضل تھے؛ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ تمام لوگوں سے افضل ٹھہرے ۔اس لیے کہ بنو ہاشم دوسرے لوگوں سے افضل ہیں ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاندان میں سے ہیں ۔جب آپ کا ظہور اس قبیلہ میں ہوا؛ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے بعد اس قبیلہ کا افضل انسان ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں سے بھی افضل ہو۔
جیسا کہ تابعین جب تبع تابعین سے افضل ہیں ؛ تو ان میں کوئی ایک ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تابعین سے افضل ہو۔ تو اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا افضل تمام تبع تابعین سے بھی افضل ہو۔
بلکہ جب جملہ طور پر کسی گروہ کو دوسرے لوگوں پر افضیلت دی جائے تو اس گروہ کا افضل دوسرے گروہ کے لوگوں سے فضل ہوگا۔تو اس سے افضلیت کا مقصود حاصل ہوجاتاہے۔لیکن اس کے بعد کے معاملات دلیل پر موقوف ہوں گے۔
بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے ہر گزیہ لازم نہیں آتا کہ اس گروہ کا افضل دوسرے گروہ کے فاضل سے بغیر کسی دلیل کے فاضل ٹھہرایا جائے۔
صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی کَنَانَۃَ مِنْ وَلَدِ اسْمٰعِیْلَ، وَاصْطَفَی قُرَیْشاً مِّنْ کَنَانَۃَ ،وَاصْطَفَی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِي ہَاشَمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِيْ ہَاشَمٍ )) [2]
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے اسمعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کو ، اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا تھا، اور قریش سے بنی ہاشم کو ، اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لیا ہے۔‘‘
پس جب جملہ طور پر قریش دوسرے لوگوں سے افضل تھے؛ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا ہر ایک فرد دوسرے لوگوں سے بھی افضل ہو۔ بلکہ تمام عرب میں اور ان کے علاوہ دوسرے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بہت سارے
|