Maktaba Wahhabi

173 - 764
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ ....إلی قولہ تعالیٰ....: وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ﴾ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے)اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا،....اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔‘‘ ’’کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘ کے الفاظ تک صاف صراحت موجود ہے کہ یہ حضرات کوئی ایک آدمی نہیں ؛ اس لیے کہ عرب لغت میں ایک آدمی کوکسی بھی صورت میں حقیقتاً یا مجازاً قوم نہیں کہا جاتا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ : اس سے مراد آپ کے شیعہ ہیں ۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ: جب آیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شامل ہیں ؛ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جن لوگوں نے کفار و مرتدین کے ساتھ جنگیں لڑیں وہ اس آیت کی تفسیر میں داخل ہونے کے اس انسان کی نسبت بڑے حق دار ہیں جس نے اہل قبلہ کے علاوہ کسی سے بھی قتال نہ کیا ہو۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اہل یمن جنہوں نے حضرت ابوبکرو عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر جہاد کیا؛ وہ ان رافضیوں کی نسبت اس آیت میں داخل ہونے کے زیادہ حق دار ہیں ؛ جو[رافضی] یہودو نصاری اور مشرکین سے دوستی رکھتے ہیں ؛ اور سابقین اولین اہل اسلام سے دشمنی کرتے ہیں ۔ اگریہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنے والوں میں بہت سارے لوگ اہل یمن تھے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : جن لوگوں نے آپ سے جنگ کی ؛ ان میں بھی بہت سارے لوگ اہل یمن تھے۔ دونوں لشکر میں اہل یمن اور قبیلہء قیس کے بہت زیادہ لوگ موجود تھے۔یمن کے اکثر لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ جیسے ذی الکلاع کے لوگ ؛ ذی عمرو ؛ ذی رعین ؛ اور دوسرے لوگ جنہیں ’’الذوین ‘‘ کہا جاتا ہے۔ چھٹی بات:....اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا‘‘یہ لفظ مطلق ہے؛ اس میں کسی کو بھی متعین نہیں کیا گیا۔ یہ لفظ ان تمام لوگوں کو شامل ہوگا جو ان صفات سے بہرہ ور ہونگے ؛ بھلے وہ کوئی بھی ہوں ۔یہ الفاظ نہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہیں اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ۔جب کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں تو ان کاشمار کسی کے خصائص میں سے نہیں ہوگا۔ تو اس سے یہ نظریہ باطل ہوگیا کہ جو لوگ آپ کے ساتھ ان اوصاف میں شریک ہیں آپ ان سے افضل ہوئے ؛ کجا کہ اس سے امامت کو واجب سمجھا جائے ۔ بلکہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ قیامت تک کوئی بھی انسان اس دین سے مرتد نہیں ہوگا؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایسی قوم کو لے آئیں گے جو اس سے محبت کرتی ہوگی؛ اوروہ ان سے محبت کرتا ہوگا؛ اس قوم کے لوگ اہل ایمان پر بڑے نرم
Flag Counter