منافقین کو انصار کے بغض کی وجہ سے اپنے کلام میں کجی کی بناپر پہچان لیے جا نے کی تفسیر زیادہ اولیٰ ہوسکتی ہے ۔
اس باب میں سب سے صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔‘‘ [1]
یہ حدیث روایت کرنے میں امام مسلم رحمہ اللہ منفرد ہیں ؛ آپ نے یہ روایت عدی بن ثابت سے نقل کی ہے؛ وہ زربن حبیش سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اعراض کیا ہے۔ بخلاف انصار کے فضائل کی احادیث کے۔ان احادیث پر تمام اہل صحاح کا اتفاق ہے۔ اور اہل علم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینی طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے ؛ کیونکہ بعض لوگوں کو ان روایات میں شک گزرا ہے۔
ساتویں بات : ....نفاق کی بہت سی علامات ہیں ۔ جیسا کہ صحیحین میں ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔‘‘[2]
یہ نشانیاں صاف ظاہر ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقت کی نشانیاں کسی شخص یا کسی گروہ کی محبت ونفرت کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ اگرچہ یہ بھی ان نشانیوں میں سے ہی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو ؛ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مستحق ٹھہرتا ہے؛ اور یہ محبت اس کے ایمان کی نشانی ہے۔یا جو انسان نصرت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر انصار کو چاہتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی علامات ہے۔ بخلاف ازیں جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ و انصار کو انہی اوصاف[یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ ]اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت کے جرم میں نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ منافق ہے۔
علاوہ ازیں جو شخص کسی طبعی امر مثلاً رشتہ داری یا کسی دنیوی امر کی بنا پر ان سے محبت رکھتا ہے تو یہ اسی قسم کی محبت ہے جیسے ابوطالب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ایسی محبت اللہ کے ہاں کچھ بھی کام نہ آئے گی۔ اور ایسے ہی جو شخص انصار ؛ یا حضرت مسیح علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام و علی رضی اللہ عنہ یا کسی بھی نبی کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہوئے محبت کرتا ؛اوران کے بارے میں ان کے مرتبہ سے بالا تر اعتقاد رکھتا ہے؛[ اور ان کے بارے میں مبالغہ آمیزی کرنے والے کو بنظر استحسان دیکھتا ہے تو یہ شخص مبالغہ آمیزی و غلو کا ارتکاب کرتا ہے]حقیقت میں یہ کوئی محبت نہیں کررہا۔اس لیے کہ اس کی محبت ایسی چیزوں سے ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں نصاریٰ نے مبالغہ آمیزی سے کام لیا تھا۔حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ تاہم یہ محبت نصاریٰ کے لیے مفید ثابت نہ ہوئی۔ محبت وہی
|