Maktaba Wahhabi

117 - 764
لوگ تھے۔ سو ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی۔ بے شک ہم یقیناً چکھنے والے ہیں ۔ سو ہم نے تمھیں گمراہ کیا، بے شک ہم خود گمراہ تھے۔ پس بے شک وہ اس دن عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔ بے شک ہم مجرموں کے ساتھ ایسے ہی کیا کرتے ہیں ۔ بے شک وہ ایسے لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا واقعی ہم یقیناً اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی خاطر چھوڑ دینے والے ہیں ؟بلکہ وہ حق لے کر آیا ہے اور اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں خطاب کفار ومشرکین سے متعلق ہے جو کہ آخرت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ ان سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔اس میں ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کرنے کا کیا مطلب ہے؟کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ مشرک اور کافر ہوتے ہوئے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھیں گے تو انھیں اس کا کوئی فائدہ پہنچے گا؟یا پھر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض ہے ؛ تو اس بغض کو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے بغض اور کتاب اللہ اور دین الٰہی سے بغض کے ساتھ کیا نسبت ہے؟ اﷲ کی پناہ ! کہ کتاب الٰہی کو ایسے غلط معنی پہنائے جائیں ۔یا کوئی یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر کی ہے ؛ ایسی بات تو صرف کوئی زندیق اور ملحد ہی کہہ سکتا ہے جس نے دین کو کھلواڑ بنالیا ہو اور وہ اسلام پر طعنہ زنی کرنا چاہتاہو۔یا پھر وہ انسان جو انتہائی سخت جہالت کا شکار ہو۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ طلحہ و زبیر ؛ سعد و ابو بکر ؛ عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی محبت کے مابین آخر ایسا کون سا فرق پایا جاتاہے؟ اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو اس کایہ قول ان لوگوں کے قول کی نسبت زیادہ غلط نہیں ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیے جانے کے دعویدار ہیں ۔ نیز آیت میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی روشنی میں ان لوگوں کے قول کاراجح ہونا ظاہر ہو۔ بلکہ [اس تفسیر کی روشنی میں ] یہ آیت ان دونوں حضرات کے محبت کے ثبوت یا نفی پربرابر دلالت کرتی ہے ۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت واجب ہونے کے دلائل زیادہ قوی ہیں ۔ چوتھی بات :....[آیت کریمہ میں وارد لفظ ]’’مسؤلون ‘‘ مطلق ہے ؛ اس کی ضمیر کا صلہ کسی بھی چیز کیساتھ مختص نہیں ۔اور اس کے سیاق میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پر دلالت کرتی ہو۔ پس اس آیت کو لے کر مدعی کا دعوی کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا یہ بہت بڑا جھوٹ و بہتان اور باطل کلام ہے۔ پانچویں بات :....اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ لوگوں سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ؛ تو اس کا دعوی کسی طرح بھی باطل نہیں کیا جاسکتا ؛ مگر اس کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے سوال کا دعوی بھی فی الفور
Flag Counter