’’ اے علی! آپ کہہ دیں کہ اے اﷲ! میرے لیے اپنے پاس عہد مقرر کردے اور مومنوں کے دلوں میں میری محبت پیدا کردے۔‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴾
چونکہ یہ خصوصیت کسی اورمیں نہیں پائی جاتی‘ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امام ہونگے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
جواب:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ:....ہم کہتے ہیں بیان کردہ روایت کی صحت نقل ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ،ورنہ مقدمات کو ثابت کیے بغیر استدلال کرنا باطل اور قول بلا برہان ہے۔اور انسان کو اس بات کے کہنے سے یا استدلال کرنے سے روکا گیا ہے جس کا اسے کوئی علم نہ ہو۔باتفاق شیعہ و اہل سنت مذکورہ بالا نسبت روایت کے ثابت ہونے کا فائدہ نہیں دیتی ۔
دوسری وجہ:....مزید براں شیعہ مصنف کی پیش کردہ دونوں روایتیں باتفاق محدثین و اہل علم موضوع ہے۔
تیسری وجہ : نیز یہ کہ آیت زیر نظر:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾کے الفاظ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہیں ۔ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شامل ہے اور دیگر صحابہ کو بھی۔ لہٰذا اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر محدود و مقصور کرنا درست نہیں ۔ بلکہ شیعہ جن کی تعظیم کرتے ہیں یہ آیت ان کو بھی یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوکہ اہل سنت و شیعہ کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ : ’’ چونکہ یہ خصوصیت کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔‘‘
ایسا کہنا بالکل غلط ہے ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ۔بیشک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر القرون کے لوگ ہیں ۔ ان ادوار میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے وہ باقی تمام زمانوں میں ایمان لانے والوں سے افضل ہیں ۔ اوروہ اس اعتبار سے ہر دور کے لوگوں سے اکثر و افضل ہیں ۔
چوتھی وجہ:....اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کر دے گا۔یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے ۔[اﷲتعالیٰ چونکہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا اس لیے اس نے قلوب مومنین میں محبت پیدا کرنے کے وعدہ کو پورا کردیا ہے] چنانچہ اﷲتعالیٰ نے سب مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عموماً اور خلفاء راشدین کی محبت اور ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت و الفت بطور خاص پیدا کردی۔ عام صحابہ....جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے....اور تابعین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے محبت و الفت رکھتے تھے۔یہ خیر القرون کے لوگ تھے۔[ کوئی صحابی ایسا نہ تھا جو ان دونوں حضرات کو برا بھلا کہتا ہو]۔
یہ خصوصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ میں نہیں پائی جاتی؛ اس لیے کہ صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نالاں اور
|