سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص سو جائے، اس پر وضو واجب ہے۔ [1]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے اور وضو کیے بغیر نماز ادا کر لیتے تھے۔[2]
وضاحت: ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اونگھنے سے نہیں ٹوٹتا۔
ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جسے خیال آیا کہ نماز میں اس کی ہوا خارج ہوئی ہے تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نماز اس وقت تک نہ توڑے جب تک (ہوا نکلنے کی) آواز نہ سن لے یا اسے بدبو محسوس نہ ہو۔‘‘ [3]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک ہوا خارج ہونے کا مکمل یقین نہ ہو جائے، وضو نہیں ٹوٹتا، لہٰذاجسے وہم کی بیماری ہو، اسے جان لینا چاہیے کہ وضو ایک حقیقت ہے، ایک یقین ہے اور یہ یقین ہی سے ٹوٹتا ہے، شک یا وہم سے نہیں ٹوٹتا۔ یاد رہے کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، چاہے تھوڑی نکلے یا زیادہ۔ آواز سے نکلے یا بے آواز۔ درج بالا حدیث کا تعلق صرف اس مریض سے ہے جسے وہم اور شک کی بیماری لاحق ہے۔ بے چارے کی ہوا نہیں نکلی مگر وہ سمجھتا ہے کہ شاید نکل گئی ہے۔ بیمار پر صحت مند کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔
قے، نکسیر اور وضو:
قے یا نکسیر آنے سے وضو ٹوٹ جانے والی روایت کو، جو بلوغ المرام اور ابن ماجہ (حدیث: 1221) میں ہے، امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے بلکہ اس سلسلے کی تمام روایات سخت ضعیف ہیں، لہٰذا’’براء ت اصلیہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو فاسد نہیں ہوتا۔ اس کی تائید اس واقعے سے بھی ہوتی ہے جوغزوۂ ذات الرقاع میں پیش آیا، جب ایک انصاری صحابی رات کو نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی دشمن نے ان پر تین تیر چلائے جن کی وجہ سے وہ سخت زخمی ہوگئے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا مگر اس کے باوجود وہ اپنی نماز میں مشغول رہے۔ [4]
|