اذان و اقامت
اذان کی ابتدا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مسلمان جب مدینہ منورہ تشریف لائے، اس وقت اذان مشروع نہیں ہوئی تھی تومسلمان ادائے نماز کے لیے وقت مقرر کر کے جمع ہوتے تھے۔ ایک دن اس بارے میں بات ہوئی کہ نماز کے اوقات کا اعلان کیسے کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے یہ تجویز دی کہ نماز کے وقت ناقوس بجایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو نصاریٰ کا کام ہے۔‘‘ کسی نے تجویز دی کہ بگل بجایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ یہود کا کام ہے۔‘‘ کسی نے کہا کہ بلند مقام پر آگ روشن کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ مجوس کا کام ہے۔‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (اذان کی مشروعیت نازل ہونے کے بعد):
فَأُمِرَ بلالٌ: أنْ يَشْفَعَ الأذانَ وأَنْ يُوتِرَ الإقامَةَ.
’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں اور تکبیر (اقامت) کے کلمات طاق کہیں اور بعض روایات میں ہے: سوائے قد قامتِ الصَّلاةُ کے اقامت کے کلمات طاق کہے جائیں۔‘‘ [1]
اذان کے جفت کلمات
اللَّهُ أَكْبرُ، اللَّهُ أَكْبرُ
اللَّهُ أَكْبرُ، اللَّهُ أَكْبرُ
أشهدُ أن لا إلَهَ إلّا اللَّهُ، أشهدُ أن لا إلَهَ إلّا اللَّهُ
أشهدُ أنَّ محمَّدًا رسولُ اللَّهِ، أشهدُ أنَّ محمَّدًا رسولُ اللَّهِ
|