دے دی تو اب کسی بھی حدیث کے پہنچنے کے بعد ایسا سوال نہ کرو کہ یہ برائے وجوب ہے یا استحباب؟یا یہ قولِ امام کے موافق ہے یا مخالف؟یا یہ برادری کے رسوم ورواج کے مطابق ہے یامعاکس؟ البتہ اگر کسی انسان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امر کے ترک کی کوتاہی سرزد ہوگئی تواب وہ یہ سوال کرسکتا ہے کہ میںجوامر چھوڑ بیٹھا وہ برائے وجوب تھا یااستحباب ؟تاکہ اگر برائے وجوب تھا تواس پر توبہ کرسکوں۔ منکرین حدیث کی تردید 3 ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جس چیز کی نہی وارد ہو اس سے کلیۃً احتراز اور اجتناب کرے،اور اس میں کسی قسم کا کوئی تردد کارفرما نہ ہو،جیسا کہ کچھ لوگ اپنی جان چھڑانے کیلئے یہ بہانہ تراشتے ہیں کہ یہ چیز حدیث میں توہے مگر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ ان لوگوں پر واضح ہونا چاہئے کہ حدیث میں جوامرونہی وارد ہے اس کی اتباع کا حکم قرآن ہی نے تودیا ہے،کما فی قولہ تعالیٰ: [وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا][1] اور جو تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز آجاؤ۔ اس قماش کے لوگوں کی خبر ایک حدیث میں موجود ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ مبارک ہے: (لاألفین احدکم علی أریکتہ یأتیہ الأمر من عندی فیقول ماأدری ماکان فی کتاب ﷲ اتبعناہ )[2] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |