Maktaba Wahhabi

253 - 328
کرنے کا حکم فرمایا:(( إنَّ الصَّلاةَ جامِعَةً)) ’’نماز (تمھیں) جمع کرنے والی ہے، یعنی نماز کے لیے جمع ہوجاؤ۔‘‘ [1] سورج اور چاند گرہن کی نماز کا طریقہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت دو رکعت نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ تلاوت کرنے کی مقدار کے قریب لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھاکر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا،پھر (قومہ کر کے) دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہو کر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، بعدازاں دو سجدے کیے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا، اتنی دیر میں سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر (خطبہ دیا جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ثنا کی اور) فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے انھیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کا ذکر (کرو، اس سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ) کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ’’(دوران نماز) میں نے جنت دیکھی۔ اگر میں اس میں سے ایک انگور کا خوشہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے اور میں نے دوزخ (بھی) دیکھی اس سے بڑھ کر ہولناک منظر میں نے (کبھی)نہیں دیکھا۔ (اور) میں نے جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی کیونکہ وہ خاوند وں کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تو ایک مدت تک ان کے ساتھ نیکی کرتا رہے، پھر ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرے تو (فوراً) کہہ دیتی ہیں کہ میں نے تو تجھ سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘[2] وضاحت: رکوع کے بعد کھڑے ہو کر قومہ کی دعائیں کرنے کی بجائے دوبارہ قراء ت شروع کر دینا دراصل ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے، لہٰذااس موقع پر نئے سرے سے فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔ واللّٰہ أعلم۔ سورج اور چاند کے گہنائے جانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ کے زمانے میں (ایک دفعہ)سورج گرہن ہوا تو آپ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں اہل خانہ میں سے کسی کا
Flag Counter