ألفا من الملائکۃ، لقدضم ضمۃ ثم فرج عنہ)[1] یعنی: یہ وہ شخصیت ہے جس کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہل گیا اور آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے اورسترہزار فرشتوں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی،(لیکن )اپنی قبر میں بھینچے گئے پھر کشادگی کردی گئی۔ 11اہل ایمان کے ساتھ مل کر جنگ کرنا اور انہیں ثابت قدمی فراہم کرنا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایاتھا: [اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۭ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ كُلَّ بَنَانٍ][2] (یاد کرو)جب وحی کررہا تھا آپ کارب فرشتوں کی طرف کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوںلہذاتم ثابت (قدم) رکھوان کوجو ایمان لائے عنقریب میں ڈال دونگا ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے کفر کیا رعب لہذا تم مارو (ان کی)گردونوں پراور تم ضرب لگاؤ ان کی(ہر) ہرپور پر۔ ملائکہ عملی طورپر اہلِ ایمان کے ساتھ ان کی لڑائیوں میں شریک ہوا کرتے تھے،جیسا کہ جنگِ بدرمیں ہوا، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: [وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۔ اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُـمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُنْزَلِيْنَ ۔ بَلٰٓى۰ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُسَوِّمِيْنَ][3] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |