جہنم اور اہل جہنم کے بارہ میں چندآیات ملاحظہ ہو: [وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوْءِ۰ۭ عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ۰ۚ وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا][1] یعنی:اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، (دراصل) انہیں پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وه (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔ نیز فرمایا:[وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ][2] اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ نیز فرمایا: [فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۰ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ][3] یعنی:اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ جنت اور جہنم اس وقت بھی موجودہیں جنت اور جہنم کے ان نصوص سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ جنت اور جہنم اس وقت بھی موجود ہیں،یہی اہل السنۃ کاعقیدہ ہے،اس بارہ میں بطورِ دلیل ایک حدیث ملاحظہ ہو: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج گرہن کی نماز کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کسوف سے فارغ ہوئے توصحابہ کرام نے عرض کیا:یا رسول |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |