Maktaba Wahhabi

283 - 328
آپ نے فرمایا: ’’دو بھی۔‘‘ پھر ایک کے متعلق ہم نے سوال نہیں کیا۔[1] غائبانہ نماز جنازہ: غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے علمائے متقدمین میں غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر جمہور سلف صالحین اسے جائز کہتے ہیں جبکہ احناف اورمالکی حضرات اسے ناجائز خیال کرتے ہیں۔ جواز کا قول راجح ہے۔ جس کی دلیل مندرجہ ذیل فرمانِ نبوی ہے: ’’آج حبشہ سے تعلق رکھنے والا ایک نیک سیرت انسان (شاہ حبش) فوت ہوگیا ہے، آؤ ہم اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صفیں درست کیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (نماز جنازہ کے وقت) ہم نے صف بندی کر رکھی تھی۔[2] صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر عید گاہ تشریف لے گئے اور وہاں چار تکبیروں کے ساتھ اس کی نماز جنازہ ادا کی۔‘‘ [3] بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ کا اہتمام اس لیے کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی سرزمین سے باہر [بغيرِ أرضِكُم] غیر ملک میں فوت ہوا تھا اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔ یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ ایک ملک کا سربراہ مسلمان ہو اوراس کے اسلام کا چرچا بھی ہوچکا ہو لیکن وہاں اس کا کوئی ہمنوا نہ ہو حتیٰ کہ اعیانِ سلطنت، اہلِ خانہ اور دوست احباب بھی اس نعمت سے محروم رہے ہوں اوراس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو۔[4] نجاشی بلاد کفر میں فوت ہوا تھا جیسا کہ مسند أحمد (:7/4، 64) وغیرہ حدیث میں [بغيرِ أرضِكُم] کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ [بغيرِ أرضِكُم] کا مطلب یہ ہے کہ وہ سرزمین مدینہ میں فوت نہیں ہوا اگر یہاں فوت ہوتا تو تم اس کا جنازہ ضرور پڑھتے، لہٰذا اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا اہتمام کرو۔[5] چنانچہ جو مسلمان بلاد کفر میں فوت ہو جائے، اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا بلاشبہ مشروع ہے اور جو مسلمان میت مذکورہ کیفیت کی حامل نہ ہو تو اس کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا بھی مذکورہ دلیل کے عموم کی و جہ سے اور نجاشی
Flag Counter