(اس وقت) جماعت سے پکے اور خالص منافق کے سوا کوئی پیچھے نہیں رہتا تھا اور بیمار آدمی کو بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیے لایا جاتا اورصف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اکیلے شخص کی نماز سے، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ستائیس درجے زیادہ (باعثِ ثواب) ہے۔‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کا حکم دوں اور اس کے لیے اذان کہی جائے، پھر کسی شخص کو لوگوں کی امامت کے لیے کہوں، پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے۔‘‘ [3]
سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ انھوں نے اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کرکے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی لیکن پھر فرمایا: ’’اذان سنتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو پھر نماز میں حاضرہوا کرو۔‘‘ [4]
بھائیو سوچو! نابینا شخص کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ مل سکی اور آنکھوں والے جو اذان سن کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے وہ کتنے بڑے جرم اورگناہ کے مرتکب ہورہے ہیں!
عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمھاری عورت تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے ہرگز منع نہ کرو۔‘‘ [5]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی عورتوں کو (نماز پڑھنے کے لیے) مسجد میں آنے سے منع نہ کرو اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘ [6]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خوشبو لگا کر مسجد جانے سے منع فرمایا ہے۔[7]
|