ہیں جب مقتدی کو معلوم ہو کہ امام آمین کہہ رہا ہے۔ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مقتدی کو اس حالت میں امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم دے سکتے ہیں کہ اُسے امام کی آمین ہی سنائی نہ دے۔[1]
نعیم مجمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھائی، پھر نعیم اس طریقے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے آمین کہی اور جو لوگ ان کی اقتدا میں نماز ادا کررہے تھے، انھوں نے بھی آمین کہی۔[2]
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔[3]
وضاحت: امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بصیغۂ جزم ذکر کیا ہے جو ان کے نزدیک اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ امام جب ((وَلا الضّالِّينَ )) کہتا تو لوگوں کے آمین کہنے کی وجہ سے مسجد گونج اُٹھتی تھی۔[4]
بلند آواز سے آمین کہنا صحیح ہے لیکن اس میں عجز و انکسار کا اظہار بھی ضروری ہے، آمین کہتے ہوئے آواز ضرور بلند کی جائے، لیکن گلا نہ پھاڑا جائے اعتدال ملحوظ رکھا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہودی جس قدر سلام اور آمین سے چڑتے ہیں، اتنا کسی اور چیز سے نہیں چڑتے، لہٰذا تم کثرت سے آمین کہو۔‘‘ [5]
دعا، تعوذ، تسمیہ اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر آمین کہہ لینے کے بعد قرآن مجید میں سے جو کچھ یاد ہو، اس میں سے کچھ پڑھیں۔[6]
آدابِ تلاوت:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾
|