كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ][1] یعنی:ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے ۔ نیز فرمایا:[يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ][2] یعنی:جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ یہ بات احادیث سے بھی ثابت ہے،بطورِ مثال صحیح بخاری ومسلم میں مروی،حدیثِ ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ پڑھی جائے،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا قصہ ذکرفرمایاہےجس نے عندالموت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ اس کے جسم کو مرنے کے بعد جلادیاجائے،اور اس کی راکھ آدھی سمندرمیں بھادی جائے اور بقیہ آدھی خشکی کی ہواؤں کے سپرد کردی جائے،بیٹوں نے یہ وصیت من وعن نافذ کردی،اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ اس بندے کی راکھ نکال باہرکرو،اسی طرح خشکی کو بھی راکھ نکالنے کا حکم دیا،حتی کہ اس شخص کا پوراجسم جیسا کہ دنیا میں تھا،تیار ہوگیا۔[3] قرآن وحدیث کے ان دلائل سے بخوبی علم ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو ان کے دنیوی جسم اور اعضاء کے ساتھ اٹھائے گا، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں،ایک وجہ واللہ اعلم یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اپناانصاف قائم کرنے کیلئے ہر بندے کے جسم کے ہرعضو سے گواہی لینی ہے،توکوئی بندہ اپنے کسی عضو کا یہ کہہ کرانکار نہ کرسکے کہ یہ تو میرا عضو ہے ہی نہیں،لہذا اللہ رب العزت دنیوی اعضاء کے ساتھ ہر بندے کا حشر فرمائےگا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |