Maktaba Wahhabi

96 - 271
کماتقدم۔پھر چونکہ (مَالِکِ) اللہ تعالیٰ کی صفت ہے،لہذا اس آیت کریمہ کا شمار توحید اسماء وصفات کے تحت بھی ممکن ہے۔ (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ)میں (اِیَّاکَ نَعْبُد)توحید الوہیت کے علم پر مشتمل ہے جبکہ (وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ)توحید ربوبیت کو متضمن ہے۔ (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ )جملہ دعائیہ ہے،جو کہ بندے کا فعل ہے اور عینِ عبادت ہے، لہذا اس کاتعلق بھی توحید الوہیت سے ہے۔ توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ الوہیت میں فرق کی ایک صورت واضح ہوکہ توحید ربوبیت اور توحیدالوہیت کے مابین فرق کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عبادت کے تعلق سے بندوں کے جملہ افعال مثلاً:قیام،قرأت،رکوع،سجود،ذکر،تشہد،عمرہ،حج،روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ توحید الوہیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام افعال جو وہ مخلوقات کیلئے انجام دیتا ہے سب توحید ربوبیت ہیں،گویا تمام افعال اللہ ،توحید ربوبیت ہیں اور تمام افعال العبد ﷲ، توحید الوہیت ہیں۔ ضروری ہے کہ بندے عبادت کے تعلق سے جو امور انجام دیتے ہیں ان میں توحید کے تقاضے پورے کریں اور ہرقسم کے شرک سے گریز کریں، اسی طرح ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال میں اسے یکتا، اکیلا اور وحدہ لاشریک لہ ماناجائے۔تاکہ اس طرح توحید کی دونوں اقسام کے تعلق سے شرک سے بچاؤممکن ہوسکے۔ ہم نے گذشتہ سطورمیں اقسام توحید کی معرفت کیلئے قرآن پاک کی پہلی اور آخری سورت کے مطالعہ کی دعوت دی ہے۔ سورۃ الفاتحہ کا سرسری جائزہ ذکرہوچکا،آخری سورت ، سورۃ الناس ہے،اس میں بھی توحید کی انہی تینوں اقسام کا ذکرملے گا۔ چنانچہ قولہ تعالیٰ:(قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ)میں اللہ تعالیٰ سے استعاذہ کاذکر ہے، جو
Flag Counter