Maktaba Wahhabi

233 - 328
وضاحت: شرعی 9میل تقریباًساڑھے 22کلومیٹر بنتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفر میں رہا، یہ سب اکابر (چار کی بجائے) دو رکعتیں ہی پڑھا کرتے تھے۔[1] سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ﴿ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز قصر ادا کرو اگر تمھیں ڈر ہو کہ کافر حملہ کر کے تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے۔‘‘ [2] آج ہم امن میں ہیں، نماز قصر کیوں کریں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (’’امن کی حالت میں قصر کی اجازت دینا )اللہ تعالیٰ کا تم پر احسان ہے اسے قبول کرو۔‘‘ [3] سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منٰی میں قصر نماز پڑھائی، حالانکہ ہم تعداد میں بہت زیادہ اور نہایت پُرامن حالت میں تھے۔[4] قصر کی حد: اگر کوئی مسافر کسی علاقے میں متردد ہو کہ آج جاؤں گا یا کل تو نماز قصر کرتا رہے، چاہے کئی مہینے لگ جائیں۔ ابوجمرہ نصر بن عمران رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ ہم غزوے کی غرض سے خراسان میں طویل قیام کرتے ہیں، کیا ہم پوری نماز پڑھیں؟ انھوں نے فرمایا: دو رکعتیں ہی پڑھا کرو، خواہ تمھیں (کسی جگہ متردد مسافر کی حیثیت سے) دس سال قیام کرنا پڑے۔[5] اگر انیس دن تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز میں قصر کرے۔ اور اگر انیس روز سے زیادہ مدت تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پھر (پہلے ہی دن سے) پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ وضاحت: اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک مسلک تو یہی ہے جس کا اظہار اوپر کیا گیا ہے کہ مسافر 19 روز
Flag Counter