اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو عورتیں ہی غسل دیں گی۔ یاد رہے کہ غسل میت کا طریقہ درج ذیل ہے اور غسل کے دوران میں اکرامِ میت کا بہت خیال رکھنا چاہیے، تفصیل یہ ہے:
وفات کے فوراً بعد میت کا منہ اور آنکھیں بند کی جائیں، بازو، ٹانگیں اور ہاتھ پاؤں کی انگلیاں بھی سیدھی کر لی جائیں، نیز قمیص اور بنیان وغیرہ اتار کر چادر سے میت کا بدن ڈھانپ دیا جائے۔
پانی اور بیری کے پتے ابال لیے جائیں، پھر نیم گرم پانی ہی استعمال کیا جائے، نیز پانی کم از کم استعمال کیا جائے۔ لکڑی کا ایک تختہ ایسی جگہ رکھا جائے جہاں پانی کا نکاس اور گندگی کو ٹھکانے لگانا آسان ہو۔ میت کو اس تختے پر لٹایا جائے۔ ناف سے گھٹنوں تک کی جگہ کپڑے سے ڈھانپ دی جائے اور غسل دیتے ہوئے میت کی شرمگاہ پر نظر پڑے، نہ کپڑے کے بغیر اسے ہاتھ لگے۔
اگر جسم زخمی ہو اور اس پر پٹیاں بندھی ہوئی ہوں تو احتیاط سے پٹیاں کھول کر روئی اور نیم گرم پانی سے آہستہ آہستہ زخم دھوئے جائیں۔ ہر کام کی ابتدا دائیں طرف سے کریں الاّ یہ کہ صرف بائیں جانب توجہ کی مستحق ہو۔
ہاتھ سے میت کا پیٹ دو یا تین دفعہ ناف کی طرف دبایا جائے (تا کہ اندر رکی ہوئی گندگی امکانی حد تک خارج ہو جائے)پھر بائیں ہاتھ پر کپڑے کا دستانہ وغیرہ (جو کفن کے ساتھ بنایا جاتا ہے)پہن کر پہلے مٹی کے تین ڈھیلوں، پھر پانی سے اس کا استنجا کریں۔ اگر زیرناف بالوں کی صفائی باقی ہو تو کر لی جائے۔
ناک، دانت، منہ کا خلال اور کانوں میں اچھی طرح گیلی روئی پھیر کر ان کی الگ سے صفائی کر لی جائے تاکہ بعد میں وضو کے دوران تین دفعہ سے زیادہ نہ دھونا پڑے۔
بسم اللہ پڑھ کر میت کو مسنون وضو کرایا جائے (سر کا مسح رہنے دیں۔)
تین دفعہ اچھی طرح سر دھوئیں۔
حسب ضرورت صابن استعمال کرتے ہوئے پورا جسم تین، پانچ یا سات مرتبہ اچھی طرح دھوئیں۔ آخری دفعہ نہلاتے وقت پانی میں کچھ کافور ملا لیں۔
میت کا کفن:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید رنگ کے تین سوتی کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں کرتا تھا، نہ عمامہ۔[1]
|