Maktaba Wahhabi

59 - 271
میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں۔و اللہ اعلم۔ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول مروی ہے: جس شخص کی چاہت ہوکہ وہ کل ، اللہ تعالیٰ کو اپنے سچے اسلام کے ساتھ ملے تو وہ ان نمازوں کی حفاظت کرے،جہاں بھی ان کی ندادی جائے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امورِ ہدایت سے سرفراز فرمایاہے اور نمازیں بھی امورِ ہدایت میں سے ہیں،اگر انہیں (اس متخلف شخص کی طرح )اپنے گھروں میں اداکروگے ،تو تم اپنے نبی کی سنت کے ترک کے مرتکب قرارپاؤگے اوراگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑا تو گمراہ ہوجاؤگے،اور جوشخص باوضوء اپنے گھر سے نکلتا ہے اور مسجد کارُخ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہرقدم کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے،اور ایک درجہ جنت میں بلند کردیتا ہے،اور اس کا ایک گناہ جھاڑ دیتا ہے ،ہمارے دورمیں جماعت سے وہی شخص پیچھے رہا کرتا تھا جو اپنے نفاق میں جاناپہچانا ہوتاتھا،جبکہ (اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )کا یہ عالَم ہوتا تھا کہ مرض کی صورت میں ایک شخص کو دوافراد اس کے پاؤں کے بل گھسیٹ کر لاتے اور جماعت کی صف میں کھڑا کردیتے۔[1] عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:جب ہم کسی شخص کو عشاء اور فجر کی نماز میں مسجد میں نہ پاتے تو اس کے بارہ میں بدگمانی کا شکار ہوجاتے ۔[2] ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک نابینا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا ،نیز کہا کہ میرے پاس کسی ایسے راہبر کا انتظام بھی نہیں ہے جو مجھے مسجد لاسکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر نماز پڑھنے کی رخصت دے دی،جب وہ شخص جانے لگا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکرپوچھا:(ھل تسمع النداء بالصلاۃ ؟)کیا تم اذان کی آواز سنتے
Flag Counter