کیا اس صحابی کی طلب سچی نہ تھی اورنیت اچھی نہ تھی ،جس نے نمازِ عید سے قبل اپنی قربانی کا جانور ذبح کرلیا تھا ؟کتبِ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اس کے اس عمل میں صرف اس کی نیک نیتی کارفرما تھی،اس نے نماز سے قبل اپنی قربانی کاجانور صرف اس لئے ذبح کیا کہ اس کا گوشت جلدازجلد پڑوس کے غریب صحابہ کرام تک پہنچ جائے۔ اس سے بہتر کوئی طلب ہوسکتی ہے؟اب آیئے سنتے ہیں ،دربارِ نبوت سے اس عمل کے بارے میں کیا فیصلہ صادر ہوتاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:(شاتک شاۃ لحم ) تمہاری یہ بکری صرف گوشت کی بکری ہے، قربانی ہرگز نہیں ہوئی۔مکمل قصہ صحیح بخاری ۵۵۵۶اورصحیح مسلم ۱۹۶۱میں ملاحظہ کیاجا سکتا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۱۰/۱۷) میں ابومحمد بن ابی جمرہ کی اس واقعہ پر تعلیق نقل کی ہے،فرماتے ہیں : وفیہ أن العمل وإن وافق نیۃ حسنۃ لم یصح إلا إذا وقع علی وفق الشرع اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عمل خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے اداہو،اس وقت تک درست اورقابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک شریعت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ ہو۔ اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ سنن دارمی میں مذکور ہے۔ اجتماعی ذکر کی بدعت کی تردید أن عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ وقف علی أناس فی المسجد متحلقین وبأیدیھم حصی،یقول أحدھم: کبروا مائۃ،فیکبرون مائۃ،فیقول: ھللوا مائۃ، فیھلکون مائۃ، ویقول: سبحوا مائۃ، فیسبحون مائۃ، فقال: ما ھذا الذی أراکم تصنعون ؟قالوا: یا أبا عبدالرحمن! حصی نعد بہ التکبیر والتھلیل والتسبیح، |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |