٭ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لیے نکلتے اور عیدا لاضحی کے دن نماز پڑھ کرکھاتے۔[1]
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز طاق کھجوریں کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔[2]
٭ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب شہر جا کر عید کی نماز باجماعت ادا نہ کر سکتے تو اپنے غلاموں اور اہل و عیال کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبداللہ بن ابو عتبہ رحمہ اللہ کو شہر والوں کی نماز کی طرح نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔[3]
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شتر (اونٹ) سوار قافلہ آیا، اس نے گواہی دی کہ انھوں نے کل چاند دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روزہ افطار کرنے اور دوسرے دن عید کی نماز کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔ (کیونکہ رؤیت ہلال کی خبر اتنی دیر میں پہنچی کہ نماز عید کا وقت نکل چکا تھا)۔ [4]
٭ عید کے دن مسجد میں صحابہ نے جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کیا۔[5]
٭ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عیدالفطر یا عیدالاضحی کے روز نماز کے لیے گئے۔ امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔ [6]
٭ عیدگاہ میں جس راستے سے جائیں، واپسی پر راستہ تبدیل کریں۔[7]
عورتوں کے لیے عیدگاہ میں آنے کا حکم:
٭ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم (سب عورتوں کو حتیٰ کہ)حیض والیوں اور پردے والیوں کو (بھی) دونوں عیدوں میں (گھروں سے)نکالیں تاکہ وہ (سب) مسلمانوں کی جماعت (نماز) اور ان کی دعا میں حاضر ہوں۔ اور فرمایا: حیض والیاں جائے نماز سے
|