تنبیہ: بعض لوگ یہ فضول عذر پیش کرتے ہیں کہ اس طرح سجدے میں عورت کی چھاتی زمین سے بلند ہو جاتی ہے یہ بے پردگی ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اوڑھنی لازم قرار دی ہے۔ یہ اوڑھنی دوران سجدہ میں بھی پردے کا تقاضا پورا کرتی ہے، آج کی کوئی خاتون صحابیات کی غیرت اور شرم و حیا کو نہیں پہنچ سکتی، جب انھوں نے ہمیشہ سنت کے مطابق نماز ادا کی تو آج کی خاتون کو بھی انھی کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اتنی گنجائش رکھتے تھے کہ بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بانہوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔[1]
سجدہ، قرب الٰہی کا باعث:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دراصل بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب سے بہت نزدیک ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں )بہت دعاکرو۔ ‘‘[2]
اس سے معلوم ہوا کہ نماز بندے کو اللہ تعالیٰ سے ملا دیتی ہے، جہاں تک سجدے میں دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اس کا محتاط طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز میں وہی دعائیں مانگی جائیں جو سجدے کے متعلق مقبول احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ اور اگر سنتیں یا نوافل ادا کیے جا رہے ہوں تو دیگر مسنون دعائیں بھی مانگی جا سکتی ہیں اور اگر کوئی شخص نماز کے بغیر صرف سجدہ کر رہا ہے تو جو چاہے دعا مانگے، خواہ عربی زبان میں یا اپنی زبان میں۔ واللّٰہ أعلم۔
اللہ تعالیٰ تو بندے سے ہر حال میں نزدیک ہوتا ہے لیکن سجدے کی حالت میں بندہ اس کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں بڑی عاجزی اور اخلاص سے دعائیں مانگتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر زمین پر سجدہ کرتے تھے، اس لیے کہ مسجد نبوی میں فرش نہ تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سخت گرمی میں نماز ادا کرتے اور زمین کی گرمی کی وجہ سے اگر وہ زمین پر پیشانی نہ رکھ سکتے تو سجدے کی جگہ پر کپڑا رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔[3]
رمضان المبارک کی اکیسویں رات تھی۔ بارش ہوئی، مسجد کی چھت ٹپک پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ آپ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا نشان تھا۔[4]
|