اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے، پھر اس پر بیٹھتے اور دل جمعی سے اعتدال کرتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آجاتی (اطمینان سے جلسۂ استراحت میں بیٹھتے)، پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کرتے، پھر جب دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو اللَّهُ أَكْبرُ کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسا کہ نماز کے شروع میں تکبیر اولیٰ کے وقت کیا تھا، پھر اسی طرح اپنی باقی نماز میں کرتے یہاں تک کہ جب وہ سجدہ ہوتا جس کے بعد سلام ہے (آخری رکعت کا دوسرا سجدہ جس کے بعد بیٹھ کر تشہد، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیرتے ہیں) تواپنا بایاں پاؤں (دائیں پنڈلی کے نیچے سے) باہر نکالتے اور بائیں جانب کولہے (سرین) پر بیٹھتے، پھر سلام پھیرتے۔ ( یہ سن کر) ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ( اے ابوحمید!) آپ نے سچ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔[1]
مذکورہ حدیث سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا۔
نماز کی نیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ))’’عملوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ [2]
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام (جائز) اعمال میں (سب سے) پہلے، نیت میں خلوص پیدا کر لیا کریں کیونکہ جیسی نیت ہوگی ویسا ہی پھل ملے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شہید، اللہ کے سامنے قیامت کو لایا جائے گا۔ اللہ اس سے پوچھے گاکہ تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑ کر شہید ہوا۔ اللہ فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے، تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ دیا گیا۔‘‘ (تجھے تیرا صلہ مل گیا۔ اب مجھ سے کیا چاہتا ہے) پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اسی طرح ایک عالم جس نے علم، شہرت کی نیت سے پڑھا اور پڑھایا تھا۔ اللہ کے حضور پیش کر کے
|