اور ایک یہ امر بھی معلوم ہوا کہ نماز میں اگر سہوًا رکعت رہ جائے تو وہ رکعت پڑھ کر سلام پھیرے، اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور پھر سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہو۔
چار کی جگہ پانچ رکعات پڑھنے پر سجدۂ سہو:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز (سہوًا) پانچ رکعات پڑھائی۔ آپ سے پوچھا گیا:کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’(یہ سوال) کیوں کر رہے ہو؟‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ نے ظہر کی پانچ رکعات پڑھائی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دو سجدے کیے اور فرمایا : ’’میں بھی تمھاری طرح آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں، لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔‘‘ [1]
اگر اس باب میں سیدنا ذوالیدین رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی شامل کر لی جائے (جس میں دو رکعت پر سہواً سلام پھیرنے اور صحابہ کے یاد دلانے پر باقی ماندہ نماز ادا کر کے سلام پھیرنے اور سلام کے بعد سجدۂ سہو کا ذکر ہے) [2] تو ان تمام روایات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے:
٭ جب امام سجدئہ سہو کیے بغیر سلام پھیر دے اور مقتدی اسے باقی ماندہ نماز یاد دلائیں تو وہ انھیں باقی ماندہ نماز پڑھائے گا اور سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کرے گا، اس کے بعد پھر سلام پھیرے گا۔
٭ اگر مقتدی اسے یہ یاد دلائیں کہ ہم نے ایک رکعت زائد پڑھ لی ہے تو ظاہر ہے کہ سلام تو پھر چکا ہے اب اُسے صرف سجدئہ سہو ہی کرنا ہوگا۔
٭ اگر رکعات کی تعداد میں شک پیدا ہو جائے یا قعدۂ اولیٰ چھوٹ جائے تو پھر سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرے گا، البتہ اگر یہ شک پیدا ہو کہ میں نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ دو پڑھی ہیں یا تین؟ تین پڑھی ہیں یا چار؟ تو وہ کم تعداد کو یقینی شمار کر کے نماز مکمل کرے گا اور سجدئہ سہو سلام سے پہلے ہی کرے گا۔
٭ اگر نمازی کو کسی وجہ سے یہ احکام یاد نہ رہیں یا وہ ایسی بھول (سہو) کا شکار ہو گیا ہے جو ان احادیث میں مذکور نہیں ہے تو پھر اسے جان لینا چاہیے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام سے پہلے بھی سہو کے دو سجدے کیے ہیں اور
|