عرض ناشر
نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ارکانِ اسلام کا عملی مظاہرہ نماز ہی سے شروع ہوتا ہے۔ نماز صرف امت محمدیہ ہی پر فرض نہیں بلکہ یہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کا بھی اہم حصہ رہی ہے۔ خود انبیاء علیہم السلام کو جب بھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے نمازی بننے کی دعا خاص طور پر کرتے رہے۔ قرآن نے اسماعیل علیہ السلام کی خوبی یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز اس قدر محبوب تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ مسلمان اور کافر کے درمیان نماز ہی خط امتیاز ٹھہری۔ نماز، فواحش و منکرات سے روکتی ہے اور مخلوق کے خالق سے رابطے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ نماز پڑھنے والا باری تعالیٰ سے براہ راست مناجات کر رہا ہوتا ہے۔ نماز کی ایک بے مثل فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے جملہ احکام جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے زمین پر بھیجے لیکن نماز کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود آسمانوں پر بلا کر دیا۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ میدانِ جنگ میں بھی نماز لازم ٹھہری بلکہ اللہ تعالیٰ نے ’’نمازِ خوف‘‘ کے خصوصی جداگانہ احکام نازل فرمائے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے رخصت ہورہے تھے، نزع کی آخری ہچکیاں لے رہے تھے، اس عالم میں بھی آپ کی زبان مبارک پر یہی تاکید تھی: ((الصَّلاةَ الصَّلاةَ، وما ملكَتْ أيمانُكُم)) (مسند أحمد: 290/6)
لیکن افسوس! آج امت اس اہم فریضے سے یکسر غافل ہے۔ اس کے دل و دماغ سے اس کی اہمیت ہی نکل چکی ہے۔ مسجدیں سنسان اور ویران ہیں اور بازاروں میں میلے لگے ہوئے ہیں۔ ایک دور وہ تھا کہ منافق
|