یہ تھا کہ مثلاً :چوری اور زنا وغیرہ بندے کی مشیئت سے سرزد ہوتے ہیں،ان کے سرزد ہونے میں اللہ تعالیٰ کی مشیئت کوکوئی دخل حاصل نہیں،کیونکہ ان کے زعم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے کہیں بلند وبالا ہے کہ وہ گناہوں اور معصیتوں کی مشیئت فرمائے۔ ابو اسحاق نے فرمایا : یہ کلمہ حق ہے مگر مراد باطل ہے۔ پھر فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہت میں صرف وہی کچھ ہورہا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ عبدا لجبار نے کہا: اگر وہ گناہوں اور معصیتوں کا خالق ہے تو پھر ان کے ارتکاب پر مجھے عذاب کیوں دے گا؟ ابو اسحاق نے فرمایا: اگر گناہ کا صدور ( اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے برخلاف) تمہاری مشیئت سے ہے، تو پھر تمہاری مشیئت اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر غالب آگئی ،اور اللہ تعالیٰ کی مشیئت تمہاری مشیئت کے سامنے بے بس ہوگئی ،تو کیا تم رب ہو اور وہ بندہ؟۔ عبد الجبار نے کہا: بتاؤ ، اللہ تعالیٰ مجھے دعوت تو ہدایت کی دے لیکن اپنی مشیئت سے میرے لئے فیصلہ گمراہی کا فرمادے ،تو یہ اس کی میرے ساتھ بھلائی ہے یا بُرائی؟ ابو اسحاق نے فرمایا: جس ہدایت کو اس نے تجھے سے منع فرمادیا ،اگر تو اس کا مالک ہے تو پھر یقینا اس نے بُرا کیا ،اور اگر اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہے توپھر اس کا عطا فرمادینا فضل ہے اور منع فرما دینا عدل ہے۔اس پر عبد الجبار مبہوت اور لاجواب ہوگیا۔ تمام حاضرین عش عش کر اٹھے ،اور کہنے لگے ،و اللہ ! اس بات کا کوئی دوسرا جواب ممکن ہی نہیں۔ دوسری حکا یت:ایک اعرابی ،عمرو بن عبید کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا: میری گدھی چوری ہوگئی ہے، دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے لوٹادے۔ عمرو بن عبید نے یوں دعا کی: اے اللہ ! اس شخص کی گدھی چرالی گی ہے، اور اس کے چرائے |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |