کا قول حق ہے، مراد باطل ہے۔ اس کے بعد حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے حدیثِ مذکور (آدم وموسی کا مناظرہ) کا معنی بیان کرتے ہوئے دو توجیہیں نقل فرمائیں، پہلی توجیہ ا پنے شیخ ،شیخ ا لاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے ،اور دوسری توجیہ اپنے فہم اور استنباط سے پیش فرمائی۔ چنانچہ(ص۳۵تا ۳۶) میں فرماتے ہیں: ’’جب آپ نے یہ بات پہچان لی ،توپھر واضح ہوکہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات کی جو معرفت حاصل ہے اس کے پیشِ نظر ان کا مقام اس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی کو کسی ایسے گناہ پرملامت کریں جس سے وہ توبہ کرچکا ہے بلکہ توبہ قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت بھی دی اور اپنا چنا ہوا بندہ بھی قرار دے دیا،اور آدم ں کو جو اپنے پروردگار کی معرفت حاصل تھی اس کے پیشِ نظر ان کا مقام اس سے کہیں اونچاہے کہ وہ اپنی معصیت کیلئے تقدیر میںلکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کریں ،بلکہ اصل معاملہ یوں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کو معصیت پر نہیں اس مصیبت پرملامت فرمائی جس کا جنت سے نکلنے اور فتنوں اور آزمائشوں کے گھر میں آنے کی وجہ سے ان کی پوری اولاد کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لئے ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی واردہوئے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے فرمایا: (أخرجتنا ونفسک من الجنۃ) یعنی آپ نے اپنے آپ کو اور ہم سب کو جنت سے نکلوادیا، اور ایک حدیث میں (خیبتنا)کا لفظ بھی مروی ہے،یعنی آپ نے ہمیں نامراد بنادیا، اس کے جواب میں آدم علیہ السلام نے ان پر اور ان کی پوری ذریت پر نازل ہونے والی اس مصیبت پر تقدیر میںلکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش فرمایا، اور فرمایا: یہ مصیبت جو میری غلطی کے بسبب میری اولاد کو حاصل ہوئی ،یہ میر پیدائش سے بھی قبل تقدیر میں لکھی جاچکی تھی ،تقدیرمیںلکھے ہو ئے کو مصیبتوں میںبطورِ حجت پیش کیا جاتا ہے،عیبوںاور گناہوں میں نہیں ،لہذا آدم علیہ السلام کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تم مجھے اس مصیبت پرملامت کیوں کررہے ہو جو |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |