جنت اور جہنم کے دوام وبقاکے متعلق شبہات کارد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں جنت اور جہنم کے دوام وبقاء کے تعلق سے ایک شبہ پیداہوتاہے اور وہ یہ کہ دوام وبقاء تو صرف اللہ رب العزت کیلئے ہے؟اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کیلئے دوام وبقاء کا عقیدہ رکھنا ،اس چیز کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں شریک کرنے کے موجب ہے،اس کاجواب یہ ہے کہ گو جنت اور جہنم ہمیشہ موجود رہیں گی،مگر ان کی ہمیشگی،اللہ تعالیٰ کی ہمیشگی کے مشابہ نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ موجود رہنا اور کبھی فناء نہ ہونا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کا دوام وبقاء،اس کی ذات کیلئے لازم ہے،جبکہ جنت اور جہنم کا بقاء اللہ تعالیٰ کے عطاکرنے سے ہے ،جس کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں دوام وبقاء عطا نہ فرماتا تو وہ بھی فناء ہوجاتیں،لہذا ان کا اصل بھی فناء پر قائم ہے،مگر انہیں فناء حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوام عطافرمادیاہے۔ اہل ایمان کا دیدارِ الٰہی برحق ہے یومِ آخرت پر ایمان لانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دارِ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا حق ہونا قبول کریں،اللہ تعالیٰ کی یہ رؤیت صرف مؤمنین یعنی اہل جنت کو حاصل ہوگی،بلکہ اللہ رب العزت کے دیدار کی نعمت،آخرت کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دیدار کا حق ہونا،قرآن ،حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے،قرآن پاک سے چند دلائل ملاحظہ ہوں: [وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ][1] یعنی:اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہونگے ،اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے والے ہونگے۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |