اور یہی ان اعمال کی جزاء ہے،اب حصولِ ثواب اور دخولِ جنت کیلئے کوئی عظیم عمل چاہئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وہ عمل روزہ ہے جو میرے لئے ہے اور میں نے اس کی یہ جزاء ضرور دینی ہے۔ روزے کاثواب ہرحال میں دوسرامعنی یہ ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کے سلسلہ میں بندے کی نیکیاں اصحابِ حقوق میں ایک ایک کرکے تقسیم ہونگی، جب روزہ باقی رہ جائیگا جو اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور جس کی جزاء اللہ تعالیٰ نے ضرور دینی ہے،تو اللہ تعالیٰ روزہ کو تقسیم ہونے سے بچالے گا اور بندہ کے بقیہ حقوق اپنے ذمہ لے لیگا اور اسے روزہ کی برکت سے جزاء عطا فرماکے جنت میں داخل کردے گا۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اسی نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ھذا من أجود الأحادیث وأحکمھا ،اذا کان یوم القیامۃ یحاسب ﷲ عبدہ،ویؤدی ماعلیہ من المظالم من سائر عملہ ،حتی لایبقی إلا الصوم، فیتحمل ﷲ عزوجل مابقی علیہ من المظالم ، ویدخلہ بالصوم الجنۃ.[1] یعنی: روزہ کے فضائل میں یہ حدیث سب سے عمدہ اورٹھوس ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کا حساب لے گا اور اس کے مظالم کے سلسلہ میں حقداروں میں اسکی تمام نیکیاں تقسیم فرمادے گا، آخر میں روزہ باقی رہ جائیگا ،تو اللہ تعالیٰ اسکے بقیہ مظالم اپنے ذمہ لے لیگا اور روزہ کی برکت سے اس شخص کو جنت میں داخل کردے گا ۔ حافظ ابن رجب الحنبلی البغدادی رحمہ اللہ اس پر یوں تعلیق قائم کرتے ہیں: (ترجمہ ) روزہ چونکہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ،اور اللہ تعالیٰ نے لازماً اسکی جزاء دینے کا وعدہ فرمایا ہے، لہذا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک محفوظ ذخیرہ کی شکل میں موجود ہے،بندے کے بقیہ اعمال کفارۂ ذنوب یا قصاصِ حقوق میں خرچ ہوجائیںگے اور اس کے روزے دخولِ جنت کا |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |