سجدئہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدے میں تشہد (درود) اور دعا پڑھنے کے بعد اللَّهُ أَكْبرُ کہہ کر سجدے میں جائیں۔ پھر اٹھ کر جلسے میں بیٹھ کر دوسرا سجدہ کریں اور پھر اٹھ کر سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوں۔ حدیث مذکور میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کا حکم ہے، اس لیے سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔
قعدۂ اولیٰ کے ترک پر سجدۂ سہو:
سیدنا عبداللہ ابن بُحَیْنَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ آپ پہلی دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے (قعدے میں سہوًا نہ بیٹھے) تو لوگ بھی نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جب نماز پڑھ لی (اور آخری قعدے میں سلام پھیرنے کا وقت آیا) اور لوگ سلام پھیرنے کے منتظر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہوا کہ اس صورت میں سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کرنا چاہیے۔
نماز سے فارغ ہو کر باتیں کر لینے کے بعد سجدۂ سہو:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی، تین رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی سیدنا خرباق رضی اللہ عنہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کے سہو کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ لوگوں کے پاس پہنچ گئے اور خرباق رضی اللہ عنہ کے قول کی تصدیق چاہی۔ لوگوں نے کہا کہ خرباق سچ کہتا ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا۔[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص چار رکعت کی جگہ تین پڑھ کر سلام پھیر دے، پھر جب اسے معلوم ہو جائے کہ میں نے تین رکعات پڑھی ہیں، اپنی بھول کا علم ہونے سے پہلے، خواہ وہ گھر بھی چلا جائے اور باتیں بھی کر لے تب بھی وہ صرف ایک رکعت، جو رہ گئی تھی، پڑھ کر سجدئہ سہو کر کے سلام پھیرے، اسے ساری نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
|