الگ رہیں۔( وہ نماز نہ پڑھیں) لیکن مسلمانوں کی دعاؤں اور تکبیروں میں شامل رہیں تاکہ اللہ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پائیں۔ ایک عورت نے عرض کی: اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو (تو پھر وہ کیسے عیدگاہ میں جائے؟) فرمایا: ’’اسے اس کی ساتھ والی عورت چادر اوڑھا دے (کسی دوسری عورت سے چادر مستعار لے کر جائے)۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہن کو (حتیٰ کہ حیض والی عورتوں کو بھی) ساتھ لے کر عید گاہ کی طرف جاتے تھے۔ آپ کی عید گاہ مسجد نبوی سے ہزار ہاتھ (ذراع)کے فاصلے پر البقیع کی طرف تھی۔ [2]
تکبیرات عید کا وقت:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تکبیرات کے وقت کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو سب سے زیادہ صحیح روایت مروی ہے، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کے دن نو ذوالحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کہتے تھے۔[3]
٭ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن گھر سے عید گاہ تک بآواز بلند تکبیرات کہتے ہوئے آتے تھے۔[4]
٭ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروں سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے ہوئے آتے تھے، پھر امام کے ساتھ تکبیرات کہتے تھے۔[5]
٭ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما 9ذوالحجہ نماز فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ نماز عصر تک ان الفاظ میں تکبیرات کہتے:
اللهُ أكبرُ كبيرًا، اللهُ أكبرُ كبيرًاُ، اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ،
’’اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ صاحب جلال ہے، اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ ہی کے لیے ساری تعریف ہے۔‘‘ [6]
|