امام کے پیچھے پڑھنے کا طریقہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھا اور بوجۂ خوفِ فرضیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے رمضان اختیار نہیں فرمایا تھا، پھر سے جاری فرمایا۔)[1]
وضاحت:
اس طریقے پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد ساری امت کا عمل رہا اور جس چیز کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مجموعی تائید حاصل ہو جائے، وہ بدعت نہیں ہوا کرتی، نیز اجماع امت کی وجہ سے بھی یہ طریق عمل بدعت نہیں ہے، ویسے بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن کی سنت اختیار کرنے کا حکم خود نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں۔[2] لہٰذاجب کسی خلیفۂ راشد کی سنت کو دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قبول کر لیں تو وہ باقی امت کے لیے حجت بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے پورے رمضان میں قیام اللیل کا باجماعت اہتمام بدعت نہیں ہے۔ دراصل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جو بدعت کہا ہے تو اس سے مراد بدعت کے لغوی معنی ہیں۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگ اپنی بدعات کو جائز ٹھہرانے کرنے کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین! دراصل بدعت وہ کام ہوتا ہے جس کی اصل اور دلیل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہ ہو جبکہ تراویح باجماعت کی دلیل سنت میں موجود ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے میں اسے باجماعت ادا نہیں کیا تو اس میں آپ کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ مبادا اسے فرض قرار دے دیا جائے، اور اب یہ خدشہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ہے، اس لیے پورا مہینہ تراویح باجماعت کا اہتمام بلاشبہ مشروع ہے۔
تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 ویں رمضان المبارک کو اتنا طویل قیام کیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں سحری ہی فوت نہ ہو جائے۔[3]
معلوم ہوا کہ ماہ رمضان میں تہجد اور قیام رمضان الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی نماز ہے۔ یہ بات سرے سے منقول ہی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی کسی رات کو تہجد اور قیامِ رمضان کا الگ الگ اہتمام کیا ہو۔
قیام رمضان، گیارہ رکعات:
ابو سلمہ رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں
|