رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے: (ما منکم من أحد وقد کتب مقعد ہ من الجنۃ ومقعدہ من النار فقالوا:یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم افلانتکل؟ فقال:اعملوا فکل میسر،ثم قرأ:[فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى Ĉۙوَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى Čۙفَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى Ċۭوَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى Ďۙوَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى Ḍۙفَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى 10ۭ][1] ترجمہ:تم میں سے ہر شخص کا جنت یا جہنم کا ٹھکانہ لکھا جاچکا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کرلیں؟(اور عمل چھوڑ دیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو، کیونکہ انسان کا جو ٹھکانہ لکھا گیا ہے اس کیلئے اسکے عمل میں آسانی پیداکردی گئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:ترجمہ:’’ جس نے دیا ( اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا ۔تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دینگے لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی ۔اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اس کی تنگی ومشکل کا سامان میسر کردینگے ۔[2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندوں کا نیک اعمال کرنا تقدیر میں لکھا جاچکا ہے،اور یہ بھی کے وہ نیک اعمال حصولِ سعادت کا سبب ہیں اور سعادت کا حصول بھی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے۔ اس طرح بعض بندوں کا بُرے اعمال کا ارتکاب کرنا بھی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے ،اور وہ بُرے اعمال، حصولِ شقاوت (بدبختی) کا سبب ہیں ،نیز شقاوت کا حصول بھی تقدیر میں لکھا جاچکاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب اور انکے مسببات ،تمام چیزیں مقدر فرمادی ہیں ۔لہذا کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے فیصلہ، تقدیر،خلق اور ایجاد سے باہر نہیں ہے ۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |