پانی لے آتا، آپ اس سے استنجا کر لیتے، میں پھر ایک اور برتن میں پانی لے آتا جس سے آپ وضو کر لیتے تھے۔[1]
٭ جس شخص کو رفع حاجت کی ضرورت ہو اور نماز کھڑی ہو چکی ہو تو اُسے چاہیے کہ پہلے حاجت سے فراغت پائے، پھر نماز پڑھے۔[2]
٭ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب کھانا موجود ہو یا پاخانہ و پیشاب کی حاجت شدید ہو تو نماز نہیں ہوتی۔‘‘[3]
بول و براز کے دباؤ کی حالت میں انسان اگر نماز پڑھے گا تو نماز میں خشوع، خضوع اور اطمینان حاصل نہ ہوگا، اس لیے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فراغت حاصل کرنے کو مقدم فرمایا۔
پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کی سخت تاکید:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور باعث عذاب (بچنے کے لحاظ سے تمھارے نزدیک) کوئی بڑی (مشکل) چیز نہیں (اگرچہ گناہ کے لحاظ سے بہت بڑی ہے) ان دونوں میں سے ایک پیشاب سےنہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔‘‘ [4]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے، پیشاب کر کے (پانی یا ڈھیلوں کی عدم موجودگی میں ٹشویا ٹاکی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کے پاجامے، پتلون اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور بڑا گناہ ہے۔
وضاحت: غیب کی یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ملی تھی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر انسان کے دنیوی اور برزخی حالات کا مفصل علم عطا کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے فوت شدہ بچوں کے انجام کی بابت سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ ہی
|