Maktaba Wahhabi

268 - 271
یا پھر اس جملہ سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ احوال بڑی تیزی سے متغیر ہونگے اور اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمان بنتی جائے گی،نافرمانی اس حد تک بڑھ جائے گی اوربچے اپنے والدین پریوں حکم چلائیں گے کہ محسوس ہوگا کہ اولاد اپنے ماں باپ کی آقا ہے۔ 2(وأن تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان) یعنی:اور تو دیکھے ننگے پاؤں،ننگے جسموں والے فقیروں کو ،نیز بکریوں کے چرواہوں کو،بڑی بڑی عمارتوں میں فخرکرنےوالے۔ (الحفاۃ): حافی کی جمع ہے،جس کا معنی :ننگے پاؤں ۔ (العراۃ):عاری کی جمع ہے، جس کا معنی:ننگے بدن۔ (العالۃ): عائل کی جمع ہے،جس کا معنی :فقیر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں پہننے کو جوتاتک میسر نہ تھا،بدن کافی لباس سے محروم تھا،اور معیشت انتہائی فقر کے ساتھ بسر ہوتی تھی،مویشی چَراکرتھوڑابہت گذارہ کرلیاکرتے تھے، یکلخت ان کے احوال تبدیل ہوجائیںگے،اور وہ شہروں میں بڑی بڑی بلڈنگوں کے مالک بن جائیں گے،بلکہ عمارتوں کی بلندی پر ایک دوسرے سے سبقت لیجانے اور فخرکرنے کی کوشش کریں گے۔ شیخ عبدالمحسن العبادحفظہ اللہ فرماتے ہیں: وھاتان العلامتان قد وقعتا یعنی:یہ دونوں علامتیں واقع ہوچکی ہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے اس دور میں عمارتوں کے ذریعہ فخر کا سلسلہ بہت بڑھ گیاہے،اگرچہ یہ تفاخر ہردور میں رہا ہے، اور ہر دور کے لوگ اپنے دورکے تفاخر کو علامتِ قیامت ہی قرا ر دیتے رہے ہیں۔ واللہ اعلم
Flag Counter