یا پھر اس جملہ سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ احوال بڑی تیزی سے متغیر ہونگے اور اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمان بنتی جائے گی،نافرمانی اس حد تک بڑھ جائے گی اوربچے اپنے والدین پریوں حکم چلائیں گے کہ محسوس ہوگا کہ اولاد اپنے ماں باپ کی آقا ہے۔ 2(وأن تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان) یعنی:اور تو دیکھے ننگے پاؤں،ننگے جسموں والے فقیروں کو ،نیز بکریوں کے چرواہوں کو،بڑی بڑی عمارتوں میں فخرکرنےوالے۔ (الحفاۃ): حافی کی جمع ہے،جس کا معنی :ننگے پاؤں ۔ (العراۃ):عاری کی جمع ہے، جس کا معنی:ننگے بدن۔ (العالۃ): عائل کی جمع ہے،جس کا معنی :فقیر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں پہننے کو جوتاتک میسر نہ تھا،بدن کافی لباس سے محروم تھا،اور معیشت انتہائی فقر کے ساتھ بسر ہوتی تھی،مویشی چَراکرتھوڑابہت گذارہ کرلیاکرتے تھے، یکلخت ان کے احوال تبدیل ہوجائیںگے،اور وہ شہروں میں بڑی بڑی بلڈنگوں کے مالک بن جائیں گے،بلکہ عمارتوں کی بلندی پر ایک دوسرے سے سبقت لیجانے اور فخرکرنے کی کوشش کریں گے۔ شیخ عبدالمحسن العبادحفظہ اللہ فرماتے ہیں: وھاتان العلامتان قد وقعتا یعنی:یہ دونوں علامتیں واقع ہوچکی ہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے اس دور میں عمارتوں کے ذریعہ فخر کا سلسلہ بہت بڑھ گیاہے،اگرچہ یہ تفاخر ہردور میں رہا ہے، اور ہر دور کے لوگ اپنے دورکے تفاخر کو علامتِ قیامت ہی قرا ر دیتے رہے ہیں۔ واللہ اعلم |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |