مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہو ئے صرف شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جنوں کی گفتگو ذکر فرمائی ،وہ گفتگو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کی بہترین مثال ہے ،چنانچہ انہوں نے خیر کی نسبت بصیغہ معروف اللہ تعالیٰ کی طرف کی لیکن شر کا ذکر بصیغہ مجہول کیا۔ملاحظہ ہو: [وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا][1] ترجمہ: ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے۔ لفظِ ارادہ معنیٔ کونی وقدری کے ساتھ ساتھ معنیٔ دینی وشرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے تقدیر کے چار مراتب ،جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر ہوا ،میں ایک مرتبہ یہ تھا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیئت وارادہ سے ہے۔ مشیئت وارادہ میں فرق یہ ہے کہ لفظِ مشیئت قرآن وحدیث میں صرف معنیٔ کونی وقدری کیلئے وارد ہوا ہے،جبکہ لفظِ ارادہ معنیٔ کونی وقدری کے ساتھ ساتھ معنیٔ دینی وشرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے۔ چنانچہ ارادہ کے معنیٔ کونی وقدری کیلئے استعمال ہونے کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: [وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللہُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ][2] ترجمہ:تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی ،گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں،اگر اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |