Maktaba Wahhabi

237 - 271
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہو ئے صرف شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جنوں کی گفتگو ذکر فرمائی ،وہ گفتگو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کی بہترین مثال ہے ،چنانچہ انہوں نے خیر کی نسبت بصیغہ معروف اللہ تعالیٰ کی طرف کی لیکن شر کا ذکر بصیغہ مجہول کیا۔ملاحظہ ہو: [وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا][1] ترجمہ: ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے۔ لفظِ ارادہ معنیٔ کونی وقدری کے ساتھ ساتھ معنیٔ دینی وشرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے تقدیر کے چار مراتب ،جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر ہوا ،میں ایک مرتبہ یہ تھا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیئت وارادہ سے ہے۔ مشیئت وارادہ میں فرق یہ ہے کہ لفظِ مشیئت قرآن وحدیث میں صرف معنیٔ کونی وقدری کیلئے وارد ہوا ہے،جبکہ لفظِ ارادہ معنیٔ کونی وقدری کے ساتھ ساتھ معنیٔ دینی وشرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے۔ چنانچہ ارادہ کے معنیٔ کونی وقدری کیلئے استعمال ہونے کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: [وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللہُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ][2] ترجمہ:تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی ،گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں،اگر اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو۔
Flag Counter