بلکہ فائدہ ہے کیونکہ یہ اقرار عقیدہ توحید کی پختگی کی علامت ہے اور اپنے عجز وضعف کا اظہار بھی ہے کہ گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے) واضح ہو کہ گناہ پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِحجت پیش کرنے کا جو نقصان دہ مقام ہے اس کا تعلق زمانۂ حال اور مستقبل سے ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی حرام کام کا ارتکاب کرتا ہے، یا کسی فریضے کے ترک کا مرتکب ہوتا ہے(اورتوبہ بھی نہیں کرتا) اب اسے کوئی ملامت کرتا ہے اور وہ ا پنے اس گناہ کے ارتکاب بلکہ اصرار پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرے (یعنی یوں کہے کہ تقدیر میں یونہی لکھا ہے کہ میںیہ گناہ کرتا ہوں یا کرتا رہونگا) تو یہ یقینا نقصان دہ صورت ہے؛ کیونکہ اس طرح وہ تقدیر کی حجت کے ذریعے ا پنے حق کو ترک کرنے،یاباطل کاارتکاب کرنے کا جواز پیش کررہا ہے۔ چنانچہ مشرکین نے اپنے عبادت لغیر اللہ اور شرک کے مسلسل اصرار پر نوشتۂ تقدیر ہی کو بطورِ حجت پیش کیا تھا ،انہوں نے کہا تھا : [ لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا ][1] یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ ہم ،نہ ہمارے آباء واجداد شرک کرتے ۔(ہم جو شرک کررہے ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یونہی چاہتا ہے اور اس نے اسی طرح لکھا ہوا ہے ) ایک اور مقام پر ان کا یہ قول مذکور ہے: [ لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ۰ۭ ][2] یعنی: اگر رحمن چاہتا تو ہم ان بتوں کی پوجا نہ کرتے۔ لہذا وہ ا پنے شرک کے جواز پرتقدیر کو بطورِحجت پیش کررہے ہیں، نہ تو انہیں ا پنے شرک پر |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |