Maktaba Wahhabi

246 - 271
بلکہ فائدہ ہے کیونکہ یہ اقرار عقیدہ توحید کی پختگی کی علامت ہے اور اپنے عجز وضعف کا اظہار بھی ہے کہ گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے) واضح ہو کہ گناہ پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِحجت پیش کرنے کا جو نقصان دہ مقام ہے اس کا تعلق زمانۂ حال اور مستقبل سے ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی حرام کام کا ارتکاب کرتا ہے، یا کسی فریضے کے ترک کا مرتکب ہوتا ہے(اورتوبہ بھی نہیں کرتا) اب اسے کوئی ملامت کرتا ہے اور وہ ا پنے اس گناہ کے ارتکاب بلکہ اصرار پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرے (یعنی یوں کہے کہ تقدیر میں یونہی لکھا ہے کہ میںیہ گناہ کرتا ہوں یا کرتا رہونگا) تو یہ یقینا نقصان دہ صورت ہے؛ کیونکہ اس طرح وہ تقدیر کی حجت کے ذریعے ا پنے حق کو ترک کرنے،یاباطل کاارتکاب کرنے کا جواز پیش کررہا ہے۔ چنانچہ مشرکین نے اپنے عبادت لغیر اللہ اور شرک کے مسلسل اصرار پر نوشتۂ تقدیر ہی کو بطورِ حجت پیش کیا تھا ،انہوں نے کہا تھا : [ لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا ][1] یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ ہم ،نہ ہمارے آباء واجداد شرک کرتے ۔(ہم جو شرک کررہے ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یونہی چاہتا ہے اور اس نے اسی طرح لکھا ہوا ہے ) ایک اور مقام پر ان کا یہ قول مذکور ہے: [ لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ۰ۭ ][2] یعنی: اگر رحمن چاہتا تو ہم ان بتوں کی پوجا نہ کرتے۔ لہذا وہ ا پنے شرک کے جواز پرتقدیر کو بطورِحجت پیش کررہے ہیں، نہ تو انہیں ا پنے شرک پر
Flag Counter