Maktaba Wahhabi

129 - 328
کے پیچھے نہیں پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس خیال سے نماز ہلکی کر دیتے کہ اس کی ماں کو تکلیف ہوگی۔[1] سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نماز لمبی کرنے کے ارادے سے، نماز میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں (ہلکی پڑھاتا ہوں) کیونکہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو تکلیف ہوگی۔‘‘ [2] زیادہ لمبی نماز پر نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ: سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی وعظ میں اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا (لمبی نماز پڑھانے والوں پر) اس دن دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم (لمبی نمازیں پڑھا کر) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہو(سنو!) جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو ہلکی پڑھاؤ، اس لیے کہ ان (مقتدیوں) میں ضعیف، بوڑھے اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ [3] سیدنا عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی: ’’جب تم لوگوں کی امامت کراؤ تو انھیں نماز ہلکی پڑھاؤ کیونکہ تمھارے پیچھے بوڑھے، مریض، کمزور اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں اور جب اکیلے نماز پڑھو تو جس قدر چاہو لمبی پڑھو۔‘‘ [4] ہلکی نماز کا یہ مطلب نہیں کہ رکوع، سجود، قومے اور جلسے کو درہم برہم کر کے رکھ دیا جائے۔ واضح رہے کہ ارکان نماز کی تعدیل اور طمانیت کے بغیر نماز باطل ہوتی ہے بلکہ ہلکی نماز کا مطلب یہ ہے کہ قراء ت میں (نسبتاً) اختصار کیا جائے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں بچے کے رونے کی آواز سنتے تو چھوٹی سورت پڑھ لیتے۔[5] اس حدیث سے اور دیگر روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تخفیف قراء ت میں ہوتی تھی۔ قیام زیادہ مختصر بھی نہ ہو۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’افضل نماز وہ ہے جس میں قیام لمبا ہو۔‘‘ [6] نماز کے لیے پرسکون انداز سے آنا چاہیے: سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
Flag Counter